جوش ملیح آبادی نے یادوں کی برات میں لکھا ہے۔
”میر اور غالب کے بعد فراق گورکھپوری اردو کا عظیم شاعر ہے۔اس بات پر یقین کے لئے ایک عمر چاہئے یا شاید آپ کو اس دور میں پیدا ہونا پڑے جو علم اور شعور کا دور تھااور وقت کے ساتھ بدل گیا ، وہ گنگا جمنی تہذیب نہ رہی جس میں کام شاستر لکھی گئی اور تہذیب کو پھیلائو ملا۔لفظوں کی آمیزش ،خیالوں کا ابھار اور یہ ذہن کے گوشے سے نکلے اور روح کی پاکیزگی سے گھر جائے۔
لہروں میں کھلا کنول نہائے جیسے
دوشیزہ صبح گنگنانے جیسے
یہ کومل روپ کا سہانہ پن آہ!
بچہ سوتے میں مسکرائے جیسے
یا پھر فراق نے کن لفظوں میں جوانی کو سمیٹا ہے
رات بھی، نیند بھی، کہانی بھی
ہائے کیا چیز ہے جوانی بھی
یہ وہ وقت تھا جب محبوب عشق میں جان دے دیتا تھا اور دوسرے کو پتہ بھی نہ چلتا تھا۔رومیو جیولیٹ شیکسپسیر نے اس ہی ماحول سے نکالی تھی مغرب میں بھی تہذیب تھی اور اس کے زیر اثر معاشرہ اور سوچ تھی۔دونوں میں فاصلہ تھا پردہ تھا۔جس کے لئے کہا گیا ہے اپنی زیبائش کو پردے میں رکھو یہ پردہ صرف گیسو تک ہی نہیں جسم کی خوبصورتی پر بھی ہے۔معاشرہ بدلا تو بہت کچھ بدلا پردہ اٹھتا گیا۔اور ساتھ ہی عریانیت پھیلتی گئی۔پھر جب چاہت اور بڑھی اور تو طاقت اور نشے کے بل بوتے پر محبوب کی چاہت بھی بڑھی مغرب سے ہم نے کوئی کام کی بات نہ سیکھی البتہ عیاشی کے رنگ میں رنگ گئے۔اپنے بچوں پر دھیان دینے کی بجائے خود کی سجاوٹ کی اور بچوں کو آزاد چھوڑ دیا۔اور بچوں نے جو کسی تہذیب کے تحت پلے بڑھے نہیں تھے۔وہ تھے۔ انکی تنہائی تھی اور سوچ تھی جو کچھ سیکھا اور اپنایا وہ میڈیا یا سوشل میڈیا سے سیکھا والدین سے گفتگو کا انداز، پہناوا، کوئی روک ٹوک نہیں آگے بڑھے تو دنیا جہاں کیNGOنے اور پڑوسی ملک کی ننگی فلموں نے معاشرے کو بدل دیا۔متوسط طبقے کی لڑکیاں اور لڑکے محرومی کا شکار بنے اور میرے پاس تم ہو” کی چاہت میں شادی شدہ زندگیاں بکھر گئیں۔ہمارے پاس اس کی زندہ مثال ہے۔یہاں اور پھر اس نظام نے ایسی گندگی چھوڑی جس کے اثر آج کا مالدار طبقہ جو طاقت ور اور اثرورسوخ رکھتا ہے۔ایک الگ تھلک زندگی گزارنے لگا۔قول سنا ہوگا۔IT TAKES A VILLACE TO RAiSE A CHILD.”بچے کو بڑا کرنے میں پورا گائوں لگتا ہے”
آسان زبان میں بیان کردیں جب ہم بڑے ہو رہے تھے تو پورے محلے اور خاندان کی نظریں ہماری حرکات کا محاصرہ کئے رہتی تھیں لباس سے لے کر میز پر کھانے کے طور طریقوں پر۔کوئی ایسا ویسا لفظ منہ سے نکلا اور قیامت ٹوٹتی تھی یہ بات امراء گھرانوں میں ہی نہیں درمیانی گھرانوں سے بھی متعلق تھھی اور اسی کا نام تربیت تھا یہ سب تمہید باندھنے کا مطلب
پچھلے ہفتے ہفتہ اسلام آباد میں دو بااثر اور مالدار گھرانوں کے بچوں کا ضرورت سے زیادہ آزادی ملنے پر ایک ایسی واردات کا جنم ہے۔کہ الفاظ نہیں مل رہے کسے مورد الزام ٹہرائیں یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے یہاں یہ بھی کہنا پڑتا ہے۔بچوں کی پرورش حرام کی دولت سے ہوگی تو اس کے نتائج اچھے نہ ہونگے۔پرانے زمانے میں رشوت خور باپ کی اولاد سے کوئی رشتہ کرنے پر تیار نہ ہوتا تھا۔اور آج کا معاشرہ بے راہ روی پر لکھی فلم کا پوسٹر ہے۔اور ان گھرانوں کے بچے پوسٹر چائیلڈ ہیں۔حکومت ناکام ہے اس لئے کہ عدلیہ اپنا کام ایمانداری سے نہیں کر رہی ہر جانے والا سپریم کورٹ کا جج اپنے پیچھے بے ایمانی اور رشوت کی داستان چھوڑ جاتا ہے اور آنے والے ججز اس کو فالو کرتے ہیں۔مزید لکھنے سے پہلے ہم اس واردات کا پس منظر بتاتے چلیں جن کا تعلق دو گھرانوں سے ہے جو اسلام آباد کے پوش علاقے میں رہتے تھے یا ہیں۔
نورمقدم جس کا قتل اس کے بچپن کے دوست ظاہر جعفر نے اسے یرغمال بنانے کے بعد اپنے بنگلے میں کیا اور اس کی ماں اور ملازمین دیکھتے رہے جب کہ ظاہر جعفر جو ایک بڑے تاجر کا بیٹا ہے اور امریکن شہرت بھی رکھتا ہے کا باپ آگاہ تھا اس واردات کے دوران اس نے پولیس کو اطلاع کروانے کی بجائے اپنے ہی بنائے سائیکوسینٹر کے ملازمین کو موقعہ واردات پر بھیجا۔نورمقدم کا سر تن سے جدا کر چکا تھا ظاہر جعفر اور پولیس کی تفتیش کے دوران اس نے قبول لیا۔گھر کے ملازم اور اسکے والدین کا بھی ریمانڈ حاصل کرلیا ہے۔پولیس نے اور تحقیقات جاری ہے۔نورمقدم جیسا کہ گواہوں کے بیان سے رپورٹ بنتی ہے گھر سے اچانک غائب ہوگئی اسکے گھر والوں کو فون آیا جس میں بتایا کہ وہ لاہور میں ہے جب کہ وہ لاہور گئی ہی نہیں تھی اور ظاہر جعفر نے اسے یرغمال بنا رکھا تھا اس بات کا ثبوت مقدم کے ڈرائیور سے ملا جس کے ذریعے اس نے سات لاکھ روپے لانے کو کہا تھا لیکن وہ صرف تین لاکھ کا ہی انتظام کرسکا اسی اثناء میں وہ قید سے نکل کر کھڑکی سے نیچے کودی اور گھر کے ملازم کے باکس کی چھت سے نیچے زمین پر آگئی ملازمین دیکھتے رہے وہ منتیں کرتی رہی گیٹ کھولدو لیکن ملازمین تماشہ دیکھتے رہے اور ظاہر جعفر کے گھر والے بھی جب شور(چیخ وپکار) کا اتنا تھا کہ پڑوسی نے پولیس کو فون کردیا لیکن پولیس کے آنے تک نورمقدم کا قتل ہوچکا تھا نورمقدم کا باپ جو پاکستان نیوی کا ریٹائرڈ ہے نے کہا ہے کہ کہ وہ انصاف کے لئے آگے تک جائیگا لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہر چند قاتل نے اعتراف جرم کرلیا ہے۔یہ فیصلہ لے دے کر ختم ہوجائیگا۔جیسا کہ پاکستان میں ہوتا رہا ہے۔ظاہر جعفر کے پرانے ریکارڈ سے ثابت ہوچکا ہے کہ وہ ایک عادی مجرم ہے باہر ملکوں میں بھی جنسی واردات میں ملوث رہا ہے۔اس واردات سے کیا یہ ممکن ہے کہ دولت مند اور بااثر گھرانے کوئی سبق سیکھینگے۔پرانا قول تھا کہ”بچے اگر حماقتیں کریں تو والدین کو پکڑو”لیکن مغرب کی فضا میں پلے بڑھے مالدار گھرانوں کے بچے اسکولوں میں خود کو ہائی اسکول میں خودمختار بنا لیتے ہیں کہ”I KNOW BETTER”ان کی زبان پر ہوتا ہے سارا پاکستان عمران خان کو گالیاں دے رہا ہے یہ ضرور ہے کہ عمران خان اگر قانونی ڈھانچے کو شروع کے سال میں قانون کے مطابق تنگ کر دیتا کہ اگر ملزم اقبال جرم کرلے تو مزید وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں اور اسی دوران اسی قسم کے ملنے جلتے واقعات جاری ہیں۔یہ معاملہ بھی ختم ہوجائیگا اور پھر کوئی واردات جنم لے گی پھر میڈیا کو مصالحہ مل جائیگا۔ہر صورت میں ظاہر جعفر سزا کا مستحق ہے نورمقدم توجان سے گئی اپنی بیوقوفی سے لیکن قتل کا یہ جواز نہیں۔
٭٭٭