”میلے ٹھیلے کی سیاست ”

0
129
مجیب ایس لودھی

پاکستان وہ وطن عزیز ہے جو اس کے بنانے والوں کو خیرات میں نہیں ملا بلکہ پاکستان کی بنیادیں کھڑی کرنے کیلئے ہندوستان کے مسلمانوں کی ہڈیاں اینٹوں کی جگہ ، گوشت گارے کی جگہ اور خون پانی کی جگہ استعمال ہواہے اور تمام پاکستانی آزادی کی اہمیت سے باخوبی واقف ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستانی دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں جشن آزادی کو بھرپور طریقے سے مناتے ہیں ۔
نیویارک میں سب سے پہلے پریڈ کا آغاز محروم بابر اینڈ کمپنی نے 1985ء میں کیا جس کے بعد بروکلین میلے کی بنیاد اس لیے ڈالی گئی کہ انڈین ڈے پریڈ میں ہمارے جوان کم سے کم جا سکیں ،وجہ یہ کہ انڈینز نے اپنی پریڈ میں ہالی وڈ کے مشہور اداکاروں کو اس لیے بلانا شروع کیا کہ ان کی کمیونٹی پریڈ میں آسکے لیکن پاکستانی یوتھ وہاں ان اداکاروں کی وجہ سے جاتے اور جھگڑے ہوا کرتے تھے ،اس کے بعد ڈاکٹر شفیع بیزار نے کوئینز میلے کی بنیاد رکھی جو کہ کچھ عرصہ کامیابی سے چلنے کے بعد اپنے اختتام کو پہنچا ۔ لانگ آئی لینڈ میں بشیر قمر نے جشن آزادی کی بنیاد رکھی جبکہ زاہد سید اور ان کے بعد علی مرزا نے ہیر ٹیج کے نام سے ”جشن آزادی میلے” کی بنیاد رکھی جبکہ نیو جرسی میں سیم خان نے کئی مخیر لوگوں کو جمع کرکے ”پاکستان ڈے پریڈ” کی بنیاد رکھی جو کہ آج کل مسائل کا شکار ہیں۔ آج اس موضوع پر قلم کار ی کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جس بنیادی جذبہ” حب الوطنی” سوچ پر پریڈ ومیلوں کی بنیاد رکھی گئی تھی رفتہ رفتہ ہم اس جذبہ حب الوطنی سے دور جا چکے ہیں ،آج کل پریڈ و میلے صرف اپنی اپنی نام و نمود تک رہ گئے ہیں ، پہلے پاکستان سے کلچرل وفود آتے تھے، ملی نغموں والے نامور گلوکار آیا کرتے تھے جو کہ بیرون ملک آکر پاکستان کا نام روشن کرتے تھے اور بیرون ملک پاکستانیوں کے جذبہ حب الوطنی کو اُبھارتے تھے ،ہماری نوجوان نسل میں پاکستان سے محبت کو اُجاگر کرتے تھے۔ بچے، بڑے ، خواتین سب پاکستان کے نام پر رنگ برنگے کپڑوں میں پاکستان کا قومی جھنڈے اٹھائے نظر آتے تھے جبکہ آج قومی جذبہ تو دور کی بات، آپس میں لڑائی جھگڑے ہی ختم نہیں ہوتے بلکہ عدالتوں تک معاملہ پہنچ چکا ہے۔ فکر صرف اس بات کی ہے کہ ان میلوں، ٹھیلوں کے لیڈران کے آپس کے جھگڑوں، نفرتوں کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل ان میلوں، ٹھیلوں سے دور ہوتی جا رہی ہے جس سے مستقبل قریب میں ان کے پاکستان کے ساتھ بے لوث محبت کے فقدان کے آثار نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ صرف اپنی ذات کی اہمیت کو ترجیح دینے کی وجہ سے ہم کمیونٹی کو ناصرف توڑنے میں مصروف ہیں بلکہ ایک دن کے شوکی وجہ سے دوریاں پیدا ہوتی جا رہی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں 16سال ”پاکستان ڈے پریڈ” کا حصہ رہا ہوں بغیر کسی عہدے کی خواہش کے دل و جان سے کام کیا۔ اس وقت پریڈ کے ٹرسٹی کا ہر کوئی بڑا احترام کرتا تھا ،عزت سے تصاویریں لیا کرتے تھے۔ سٹی کے کانگریس مینوں، میئر، سینیٹرز اور درجنوں سٹی کونسل مینوں کی ایک لمبی لائن ہوا کرتی تھی کہ وہ دو منٹ کے لئے اپنا خطاب کر سکیں ۔اس وقت کے پولیس چیف کے مطابق 20سے 25ہزار سے زائد کمیونٹی آیا کرتی تھی۔ بچے، بڑے سب خوب جشن مناتے تھے لیکن بعد کے آنے والوں نے ان میلوں، ٹھیلوں کو اپنی جاگیریں سمجھ کر برباد کردیا۔ کاش ایک بار پھر تمام لیڈران مل جل کر میلوں، ٹھیلوں کے بڑے بڑے اجتماع کرائیں تاکہ کمیونٹی میں ایک بار پھر جان پڑ سکے اور ہماری قوم میں وہی جذبہ حب الوطنی نظر آئے،کمیونٹی کو چاہئے کہ باہمی اتفاق اور اتحاد کے ساتھ میلوں ، ٹھیلوں کا انعقاد ممکن بنائے ، پہلے میلوں کی انتظامیہ کم ہوتی تھی اور شرکا کی تعداد زیادہ رہتی تھی لیکن آج کل معاملہ الٹ ہے کہ انتظامیہ کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی ہے جبکہ شرکا کی تعداد کم ہوگئی ہے ، میلوں کی انتظامیہ کو اس کے متعلق سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے ، ضروری نہیں ہوتا کہ میلوں کے انعقاد کے لیے ہر کسی کو انتظامی عہدہ دیا جائے ،کمیونٹی کو اپنے طور پر بھی میلوں ، ٹھیلوں کے انعقاد میں انفرادی سطح پر کوشش کرنی چاہئے اور ضروری نہیں ہے کہ ہمیں سیکرٹری ، صدر اور بڑا عہدہ ملے تو ہی ہم کمیونٹی میں اچھا کردار ادا کریں بلکہ کمیونٹی کو بغیر عہدوں کے خدمات انجام دینے کی عادت کو اپنانا چاہئے ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here