”میراجسم میری مرضی کا رزلٹ”

0
224
شبیر گُل

میرا جسم میری مرضی کے حمایتیوں کے منہ پر زناٹے دارطمانچہ ، جنوبی کوریا میں پاکستان کے سفیر کی بیٹی نور مقدم کا قتل مادر پدر آزاد ، ننگ دھڑنگ مافیا کے منہ پر کالک ہے ،نور مقدم کا قتل انتہائی نفرت میں کیا گیا ہے۔یہ پڑھے لکھے مہذب اور تہذیب یافتہ انسانوں کی رنگ رلیوں کا شاخسانہ ہے جس شخص نے قتل کیا، وہ جاہل اور گنوار نہیں تھا، پڑھا لکھا اور سوسائٹی میں تعلق رکھنے والا شخص ہے لیکن جب اسکی سفاکی کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ تعلم انسان کے اندر کے جانور کو ختم نہیں کرسکتی۔ اندر کے جانور کو مارنے کے لئے تربیت کا ہونا ضروری ہے ۔تعلیم کا تربیت سے کوئی تعلق نہیں ،تربیت ارد گرد کے ماحول ،سوسائیٹی اوربغیر شادی کے رہنے کو living relation کہتے ہیں ۔یورپ ، امریکہ اور انڈیا میں شادی کے بغیر رہنا، میاں بیوی جیسا تعلق رکھنا۔اسی لئے تو چند بازاری عورتیں جو اپنے آپ کو ماڈریٹ اور اسلامی تہذیب کو جہالت گردانتے ہیں، نکاح کو کاغذ کا پْرزہ سمجھتی ہیں، اْن کے نزدیک جسم اْنکا ہے ،مرضی بھی اْنہی کی چلے گی ، ایسی بد بخت مادر پدر آزاد ،بیہودہ اور ننگی عورتیں معاشرے پر کلنگ کا ٹیکہ ہیں۔
نور مقدم کا قتل بہت ہی سفاک ،انتہائی بھیانک، دردناک، تشویشناک اور سبق آمیز ہے ،نور مقدم میرا جسم میری مرضی کے نعروں کی روح رواں تھی، مختلف قسم کے اخلاق باختہ سلوگن پر مشتمل پوسٹرز کے ساتھ مظاہروں کی زینت ہوا کرتی تھی۔پاکستان میں ننگی عورتوں کا مخصوص طبقہ عورتوں کو گھریلو نظام کی خلاف اور اخلاقی بے راہ روی پر اْکسا رہا ہے ۔یہ عورتیں نسوانی حقوق کے نام پر پر اسٹیٹس ،پاکستانی معاشرت میں ماروی سرمد جیسی آزاد خیال بیہودہ عورتیں نوجوان نسل کو خاندانی نظام کے خلاف بغاوت پر اْکسا ر ہی ہیں ، یہ نظریہ پاکستان ،اسلامی شعار کے خلاف بغاوت اور بے حیائی کا نشان ہیں۔
*کیا ہیومن رائٹس آرگنائزیشنز صرف عورتوں کو ہیومن consider کرتی ہیں؟
*کیا ہیومن رائٹس آرگنائزیشنز کے نزدیک چائلڈ ریپ کیس ہیومن رائٹس کی حدود میں نہیں آتے؟
*کیا ہیومن رائٹس آرگنائزیشنز سندھ میں کام نہیں کرتیں جہاں وڈیرے ہاریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتے ہیں؟
* ہیومن آرگنائزیشنز بچوں کے ساتھ زیادتی کے مجرموں کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتیں۔
*کیالبرل گماشتے اپنی بچیوں اور بہنوں کے Living relationship پر آمادہ ھوچکے ہیں۔
* کیا اسمبلیوں میں بیٹھے نان سیریس اور اْجڈ جانوروں کو مستقبل کی نسل کی فکر نہیں۔
* کیا ہم مغربی معاشرت کے خدوحال سے متاثر ہوکر اپنے کپڑے نہیں اتار چکے؟
* کیا ملک میں بے حیائی اور بے غیرتی پھیلانے والے عناصر طاقت پکڑ چکے ہیں؟
* کیا ملکی قانون ماڈریٹ دہشت گردوں اور ایک عام سادہ آدمی کو ایک نظر سے ٹریٹ کرتا ہے ۔؟
* ان مادر پدر آزاد ، بے دین ، بے شرموں کو کھلی آزادی سے پر عام طبقہ کے جذبات برانگیختہ نہیں ہونگے؟
کڈی پارٹی والی آنٹیاں جو ملک میں کنجر خانہ کو پروموٹ کرنا چاہتی ہیں، ایسی بیہودہ عورتوں کو آئین پاکستان اور نظریہ پاکستان کے برعکس کام کرنے پر دہشت گردی کے پرچے درج ہونے چاہیں،ہر قاتل کے خلاف دہشت گردی کا پرچہ درج ہونا چاہئے، پھانسی ہونی چاہئے تاکہ مجرم ملک میں بے حیائی اور بیغرتی نہ پھیلا سکیں۔پاکستان میں ڈانس اور شراب پارٹیوں پر پابندی ہونی چاہئے۔ڈرگ انڈیکشن سینٹرز پر چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہئے۔مساج سینٹر کا چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہئے۔انکے بارے قانون سازی ہونی چاہئے۔ یہ سینٹرز ملک میں بے حیائی اور اخلاقی بے راہ روی کا مؤجب ہیں۔نور مقدم کے قتل کے بعد ،میرا جسم میری مرضی کی بیماری آنٹیاں آجکل پریشان ہیں کہ کس طرح خواتین کے حقوق کا ڈنڈھورا پیٹیںکیونکہ قتل کرنے والا لبرل اور نور مقدم بھی لبرل ،اس قتل میں کوئی ملا شامل نہیں وگرنہ ابھی تک کئی آنٹیاں بی بی سی اور انڈیا کو انٹرویو دے چکی ہوتیں۔عورت کے ساتھ ظلم کی کئی من گھڑت داستانیں بیان ہوچکی ہوتیں مگر بغیر شادی کے شامیں گزارنا اور راتوں کو ڈانس اور شراب پارٹیوں نے اس بار ان مغربی کْتیوں کو ایکسپوز کردیا۔
لبرل طبقے کے طرز زندگی کا گھٹیا روپ سامنے آ رہا ہے کہ کس طرح یہ ناجائز تعلقات بناتے ہیںجب ان عورتوں کا اپنا خاوند کسی دوسری طرف منہ مارتاھے تو انکی آنکھیں کھلتی ہیں، خاندانی فسادات سے بچنے کے کے لیے ضرور ی ہے ، خاندانی طرز زندگی کو اپنا جائے جہاں شرم و حیاء اور اخلاقیات کا عنصر موجود ہو،مغرب زدہ کھوکھلے نعروں کی بجائے اپنی دینی اور اخلاقی اور سماجی روایات کے تحت خاندانی طرز زندگی کو اپنا جائے۔
شبیر احمد گل

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here