یوں تو پاکستان کی سیاسی تاریخ گزشتہ 75 سالوں میں کبھی بھی مثالی اور جمہوری روایات سے مرتب نہیں رہی، قارئین ان حالات اور بحرانوں سے بخوبی آگاہ ہیں اور ہم بھی وقتاً فوقتاً اپنے کالموں میں اس کا حوالہ دیتے رہے ہیں لیکن اس بار وطن عزیز کو جس بحران کا سامنا ہے ،اس کی شدت اور انتشاری کیفیت گزشتہ بحرانوں کو پس پُشت ڈال گئی ہے۔ بانیٔ پاکستان کی رحلت کے بعد سے اب تک کے حالات پر نظر ڈالیں تو ان تمام واقعات و معاملات میں ایک قدر مشترک نظر آتی ہے مقتدرین اور فیصلہ سازوں کی مرضی اور فیصلے اور ان میں بیورو کریسی یا عدلیہ کا کسی نہ کسی شکل میں تعاون یا اشتراک عمل، اس بار جو بحرانی کیفیت نظر آئی ہے، قطع نظر تمام تھیوریز اور بیانیوں کا یہ عقدہ کُھل کے سامنے آرہا ہے کہ کپتان کو حق حکمرانی دلانے والوں کا بوجوہ کچھ معاملات پر نقطۂ نظر اختلافات کا سبب بنا اور نوبت سیاسی و معاشی تنزلی کی اس حد تک پہنچ گئی جہاں نجات اور بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آئی ہے اور خود فیصلہ ساز بھی عجیب مخمصہ میں پھنسے نظر آتے ہیں۔ ہمیں منفرد لہجے کے شاعر اور پی ٹی وی کے سابق جی ایم تاجدار عادل کا اس حوالے سے ایک شعر یاد آرہا ہے!
وہ اس کمال سے کھیلا تھا عشق کی بازی
میں اپنی فتح سمجھتا تھا مات ہونے تک
اس شعر کے مفاہیم و تعلق کو موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھیں تو ”وہ” سے مراد عمران خان کو رکھا جائے،عشق سے مراد سیاست کا کھیل اور لفظ میں سے مراد فیصلہ سازوں کو شمار کیا جا سکتا ہے۔ ہم سطور بالا میں عرض کر چکے ہیں کہ سیاسی اقتدار و بحرانوں کے کھیل میں قدر مشترک مقتدرین کی مرضی و منشاء کا ہمیشہ عمل دخل رہا ہے اور ان کے اسکرپٹ و ہدایات کے مطابق اقتدار یا تنزلی کی فلم کی تکمیل ہوئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کو اقتدار سے محروم کرنے میں کہیں نہ کہیں اسکرپٹ رائٹر یا ڈائریکٹر سے شدید غلطی ہوئی ہے اور اس وجہ سے فلم کا اختتام اس کے اسکرپٹ کے برعکس ہوا ہے۔ تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ جب بھی مقتدرین نے سیاست کی بساط لپیٹنے اور اپنی منشاء کے مطابق تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے تو متاثرہ فریق کو سر تسلیم خم ہی کرنا پڑا ہے۔ اس بار ہوا یہ کہ عمران خان نے فیصلہ سازوں کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے برعکس مقابلہ کر کے سیاست کی شاطرانہ بساط کو اُلٹ کر رکھ دیا۔ کپتان کے اس اقدام کو مہمیز نہ صرف عوام کے بھرپور احتجاج و رد عمل سے ملی بلکہ میڈیا، سوشل میڈیا حتیٰ کہ خود فیصلہ سازوں کے اندر حاضر و سابق کوارٹرز کا رد عمل بھی اگلے اقدامات و فیصلوں کی راہ میں سدِّ راہ با ہوا ہے۔ کرپٹ اور خود غرض سیاست دانوں کی حکومت بنانے کا فیصلہ نہ صرف مقتدرین کیلئے حلق کی ہڈی بن گیا ہے بلکہ درحقیقت اس عمل سے کپتان کو مزید مقبول و طاقتور بننے کا سبب بنا ہے درحقیقت غلط اسکرپٹ کے باعث عمران کے اقتدار کے دوران عوام کو جو شکایات و تحفظات درپیش تھے وہ اب ہمدردی و حمایت میں تبدیل ہو گئے ہیں گویا فیصلہ سازوں نے ایک گرے ہوئے فرد کو بھرپور قوت کے ساتھ کھڑا کر دیا ہے۔
گزشتہ تین ماہ سے ملک جس سیاسی و معاشی صورتحال سے گزر رہا ہے آئینی و قانونی بحران نے وفاق بالخصوص 60 فیصد آبادی کے سب سے بڑے صوبے کو اسٹینڈ اسٹل پر لا کھڑا کیا ہے، آپ سب اس سے واقف ہیں۔ گورنر کوئی نہیں، وزیراعلیٰ اقلیتی ہو چکا ہے، انتظامی و عوامی امور پر کوئی توجہ نہیں، ادھر وفاق میں تاریخ کی کمزور ترین حکومت اور کمزور ترین وزیراعظم تیرہ جماعتوں کے الگ الگ رائے کے باعث اولاً تو کوئی فیصلے ہی نہیں ہو رہے ہیں اور کوئی فیصلہ کرنا ہی پڑ جائے تو آشیرواد حاصل کرنے کیلئے فیصلہ سازوں کی طرف دیکھا جاتا ہے۔ ایسے اقدامات کئے جا رہے ہیں جو نہ قانون کے مطابق ہوتے ہیں نہ آئینی رُو سے صحیح ہوتے ہیں۔ افراتفری، بے چینی، لاء اینڈ آرڈر کی بدترین صورتحال ہے۔ دہشتگردی اور خود کش حملوں میں آئے دن دھرتی کے محافظ سپوت جام شہادت نوش کر رہے ہیں، ڈالر اور اسٹاک ایکسچینج کی بدترین صورتحال (تین ماہ میں اسٹاک ایکس چینج کو ایک ہزار ملین کا نقصان ہو چکا ہے)۔ مہنگائی نے عوام کے ہوش اُڑا دیئے ہیں۔ نہ بجلی ہے نہ پانی ہے، گیس منقطع ہو چکی ہے۔ یہی نہیں عوام اور میڈیا کے لوگوں پر ایف آئی آرز اور گرفتاریوں کے بے جا تجربے کے دعویداروں کے پاس کوئی لائحہ عمل کوئی فیصلہ سازی نظر نہیں آتی کہ بدترین حالات پر قابو پایا جا سکے۔ معاشی ماہرین کے مطابق سیاسی بالخصوص معاشی صورتحال ملک کو سری لنکا جیسے حالات کی طرف لے جا رہی ہے۔
ادھر عمران خان اپنے مضبوط بیانیئے اور عوام کی بے حد سپورٹ کے مطابق اپنے کارڈ زبردست طریقے سے کھیل رہاہے۔ پاکستان بھرمیں عوام کے بھرپور جم غفیر کی حمایت کے بعد 25 مئی کو لانگ مارچ اور دھرنے کیلئے اسلام آباد پہنچ رہا ہے، 25 مئی کو ہی آئی ایم ایف کا اجلاس ہے ۔ ذرا سوچیئے کہ ریاست اور حکومت ملک و قوم کے حوالے سے کس رُخ پر چل رہی ہیں۔ مثبت اقدام اور امن و امان کے حوالے سے مدون اور صحیح فیصلوں کے برعکس اپنی طاقت اور رِٹ کا اظہار گرفتاریوں، چھاپوں اور آہنی ہاتھوں سے نپٹنے کے بیانوں، دعوئوں سے کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب عمران خان نے لانگ مارچ کے اعلان کیساتھ انتظامیہ کو کسی بھی غیر انسانی اقدام اور رکاوٹ سے باز رہنے کی دھمکی دیتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کو بھی نیوٹرل رہنے کا پیغام دے دیا ہے۔ جس وقت ہمارا یہ کالم آپ کے زیر مطالعہ ہوگا، بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہوگا۔ ہمارے خدشات یہی ہیں کہ حالات میں کوئی بہتری آنے کے برعکس حالات مزید بگڑ سکتے ہیںِ خدانخواستہ بقول شیخ رشید کسی بھی ناخوشگوار اقدام یا سختی کے باعث سیاسی معرکہ آرائی خونی فساد میں تبدیل ہو سکتی ہے اور کوئی بھی ہلاکت آگ کو مزید شعلہ فشاں بنا سکتی ہے۔ ہماری عرض ہے کہ حالات کے ناقابل تلافی ہونے سے پہلے ہی ہمارے مقتدرین انصاف کے اداروں کو اس طوفان کو روکنے کے لئے اپنی ذمہ داری پوری کرنا چاہیے۔ اس کا حل صرف یہی ہے کہ یا تو فوری انتخابات کیلئے عبوری حکومت بنا کر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے یا موجودہ حالات کے تناظر میں ملک و عوام کے مفاد میں ایمرجنسی کا اعلان کر کے مطلوبہ اقدامات اُٹھائے جائیں، ویسے بھی اس وقت وفاق بالخصوص پنجاب میں آئین و قانون نظر نہیں آتا۔ اللہ کریم میرے وطن و عوام کو حفظ و امان میں رکھے۔
٭٭٭