صرف کراچی والوں کی ڈرامہ کمپنی!!!

0
179
حیدر علی
حیدر علی

چند ماہ تک یا یہ کہیے کہ ہفتے میں چند گھنٹے تک پاکستانی ڈرامہ دیکھنے کے بعد میں اِس نتیجے پر پہنچ گیا کہ ڈرامہ کے کہانی نویس ، ہدایت کار اور پروڈیوسر اِسے بناتے وقت کراچی والوں کے ساتھ انتہائی امتیازی سلوک برتتے ہیں، مطلب یہ کہ ڈرامہ میں جب بھی کراچی والے کا کوئی کردار پیش کیا جاتا ہے تو اداکار ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ہسپتال کے ٹی بی وارڈ سے پیدل چل کر آیا ہو، پیشہ کے لحاظ سے اُسے ہمیشہ پاکٹ مار، لٹیرا یا بیکار انسان دکھا یا جاتا ہے، یا نہیں تو یہ دکھایا جاتا ہے کہ وہ ٹھیلے میں آلو یا پیاز فروخت کر رہا ہو، ایک مرتبہ تو ایک ڈامہ میں مجھے یہ دیکھ کر سخت خیرانگی ہوئی کہ کراچی کا ایک نوجوان ٹوکرے میں چوڑیاں فروخت کر تے وقت یہ آوازیں لگارہا تھا کہ ” یہ چوڑیاں ہیں میری محبت کا پیام، جس نے پہنا گھر ہوا اُس کا آباد. ” بہرکیف اِس کے مقابلے میں ہیرو کا کردار ہمیشہ کسی دوسرے شہر کے ہٹے کٹے نوجوان کو بلا تفریق دے دیا جاتا ہے، جو ایک گھونسا مارتے ہی کراچی والے کو ناک آؤٹ کر دیتا ہے بلکہ وہ کراچی والے کی محبوبہ پر بھی ڈورا ڈالتا ہے، اُسے یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ کراچی والا ہے ، اِس سے ذرا بچ کر رہنا، اِسکا اظہار محبت ، اِس کی اداکاری ،نرم آنکھیں اور بلّی کا دِل تمہیں لے ڈوب سکتا ہے، تمہارے سہانے خواب کو جو تم روزانہ صبح و شام دیکھتی ہو کہ تم کسی عالیشان محل میں رہ رہی ہو، نوکر چاکر تمہارے اِرد گرد گھومتے رہتے ہیں اور بارہا تم سے یہ پوچھتے رہتے ہیں کہ کیا کھانا لگاؤں. تم جواب دیتی ہو کہ ابھی ابھی تو میں نے صبح کا ناشتہ کیا ہے اور تم وہ خواب جو دیکھتی ہو کہ تم مرسڈیز گاڑی ڈرائیو کر رہی ہو، اِن خوابوں کی تعبیر ایک کراچی والا نہیں کر سکتا، کیونکہ اِس کے شہر میں کوٹہ سسٹم رائج ہے. ڈرامہ میں ہیرو بننے کیلئے جسم میں جتنی پھرتی چاہیے اِس بندے میں اتنی چربی بھی نہیں۔یہی سوچ بوچ کر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ کراچی والوں کی میں خود ایک ڈرامہ کمپنی بناؤں، جس میں ہیرو اور ہیروئین بھی کراچی کی ہوں اور دوسرے اداکار سے لے کر پوچھالگانے والا بھی کراچی کے ہوں.تاہنوز دستور یہ رہا ہے کہ ڈراموں میں قائداعظم کے مزار شریف کو دکھا کر یہ عندیہ پیش کیا جاتا ہے کہ اِس ڈرامے کی کہانی کا تعلق کراچی سے ہے لیکن میرے ڈرامے میں لالو کھیت اور جناح ائیر پورٹ کو بارہا دکھایا جائیگا تاکہ ناظرین کے دماغ میں یہ بات مرتسم ہوجائے کہ یہ ڈرامہ کراچی اور صرف کراچی والوں کا ہے۔ ڈرامہ میں کام کرنے کیلئے سارے اداکار دُبلے پتلے ہونگے اور بلکہ اداکاروں کو متعدد مرتبہ مختلف مقامات پر پان چباتے ہوے بھی دکھایا جائیگا۔ مختصر یہ کہ کراچی والوں کا جو ایک مخصوص کلچر ہے ، میرے ڈرامے میں اُس کی پوری طرح عکاسی ہوگی، دوسرے ڈراموں کی طرح میرے ڈرامے میں کراچی والوں کو کسی بھی لحاظ سے کمتر نہیں دکھایا جائیگا بلکہ اِس کے بر مخالف اُنہیں اِس شان و شوکت سے پیش کیا جائیگا جیسے وہ لارڈ آف دی لندن کے ایک کردار ہوں۔ وہ جھگی میں رہنے کے بجائے عالیشان محلوں میں رہ رہے ہوں ، وہ بیروزگار یا ٹھیلا لگانے کے بجائے کسی کمپنی کے ایگز یکیٹو ہوں، وہ بس میں سفر کرنے کے بجائے لینڈ روور گاڑی چلا رہے ہوں۔ وہ جب بھی کسی کے گھر میں خصوصی طورپر اُس گھر میں جہاں اُن کی منگیتر رہتی ہے جارہے ہوں تو اِس طرح چل رہے ہوں جیسے فوجی نوجوان چلتے ہیں، لیفٹ رائٹ ، لیفٹ رائٹ. بعض منظروں میں ہیرو کو شیروانی اور چوری دار پائجامہ میں ملبوس بھی دکھایا جائیگا، تاکہ کراچی کا کلچر پوری طرح ایکسپوز ہو، کراچی والے سوپ زیادہ کھاتے ہیں تو جب بھی کھانا کھانے کا منظر دکھایا جائیگا اُس میں سوپ ضرور شامل ہوگا،کراچی والوں کو کبوتریں پالنے کا بہت شوق ہے لہٰذا ہر گھر کی چھت پر کبوتر کا مچان دکھایا جائیگا، جہاں کبوتریں بیٹھیں ہوئیں نظر آئینگی۔
رہی موسیقی کا سوال تو کراچی والوں کو کمر لچکا کر رقص کرنا زیادہ پسند نہیں ، اُنہیں عام نغموں سے
زیادہ قوالی پسند ہے، اِس لئے ہمارے ڈرامے میں جب بھی ہیرو کو کبھی اپنے دِل کی بھراس نکالنے کی ضرورت پیش آئیگی تو وہ اپنی محبوبہ کے گھر کے سامنے قوالی کا انتظام کرے گا. ویسے بھی آپ ڈرامہ میں نغمہ نگاری کے منظر کو شاذو نادر ہی دیکھتے ہیں تاہم لڑکیوں کو اپنی ہمجولیوں کے ساتھ رقص کرنے کی آزادی ہوگی. رقص کرتے وقت وہ صرف کراچی کے شاعروں کی غزلیں گنگنائیں گی تاکہ کراچی کے شاعروں کی دیوانیں جو ردی خانہ میں پڑیں رہتی ہیں وہ وہاں سے نکل سکیں۔
ڈرامہ میں مکالمہ بازی ایک انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے. مجھے عام طور پر جو مکالمے نظر آتے ہیں اُسے سُن کر ناظرین خوفزدہ ہوجاتے ہیں اور وہ انتظار کرنے لگتے ہیں کہ باپ اب اپنی بیٹی یا شوہر اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھادیگا. آپ اِسے حقیقی دنیا کا ایک روپ تو کہہ سکتے ہیںلیکن اِس طرح کے افسوسناک واقعہ کی کسی طرح سے بھی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتے لہٰذا ہمارے ڈرامہ میں چیخ کر مکالمے کی ادائیگی کی ہرگز اجازت نہیں ہوگی، باپ یا شوہر کو اگر کبھی سر زنش کرنی ہی ہے تو وہ انٹرنیٹ یا ایم ایس سے کر سکتے ہیں،خواتین و حضرات ! میرے ڈرامہ کا ابتدائی خاکہ آپ کی نظر ثانی کیلئے حاضر ہے اگر آپ اِس ڈرامہ کمپنی کا ایک حصہ بننا چاہتے ہیں تو فی الحال اپنی اِس خواہش کو اپنے دِل ہی میں رکھیں، کیونکہ ڈرامہ کمپنی کی مالی حالت خستہ حالی سے دوچار ہے اور میں بیٹھ کر یہ سوچ رہا ہوں کہ کس طرح وسائل کی دستیابی کو ممکن بنایا جاسکے.لہذا برائے مہربانی آپ انتظار کریں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here