یہ بات نصوص قطعیہ سے ثابت ہے اور ہمارا بنیادی عقیدہ ہے کہ بلاشبہ حضور پر نور ۖ خاتم الانبیا ہیں۔ اب قیامت تک کسی بھی نبی یا رسول کی بعثت نہیں ہوگی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب اصلاح و ہدایت کے دروازے بند ہوگئے ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ عظیم الشان کام ختمی مرتبت سرور عالم ۖ کے بعد کل بھی جاری تھا، آج بھی جاری ہے اور صبح قیامت تک جاری رہے گا۔ واضح رہے کہ اصلاحی امور کا تعلق فقط ظاہر سے نہیں بلکہ باطن سے بھی ہوتا ہے۔بلفظ دیگریوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ انسان کے لیے جہاں ظاہر کا مصفّٰی ہونا ضروری ہے وہیں باطن کا بھی۔ بلکہ ظاہر کے بالمقابل تزکیہ باطن بے حد ضروری ہے اور یہ ایک ایسا وصف ہے جو انسان کو انسانیت کی معراج سے ہم کنار کرنے میں ایک کلیدی رول ادا کرتا ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ جب ختمی مرتبت رسول مکرم ۖ پر رسولوں کا سلسلہ ختم کردیا گیا تو پھر آپ کے پردہ فرمانے کے بعد یہ اہم ترین امور کیسے انجام پذیر ہوں گے۔ خالق کائنات نے اپنے بندوں کی فلاح واصلاح کا بھرپور انتظام کر رکھا ہے۔ من جانب اللہ ان امور کی انجام دہی کی ذمہ داریاں دو جماعتوں کے سپرد کی گئی ہیں۔ وہ دو مقدس جماعتیں علما اور اولیا کی ہیں۔ دونوں جماعتوں کی کارکردگیوں میں بین فرق یہ ہے علما ظاہری اصلاح کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور اولیا صفائے باطن کا۔ یہی دو جماعتیں ہیں جو ہمیں ایمان وعمل کا حسین سنگم بنائے رکھتی ہیں اور ہمارے ظاہر وباطن کو سنوار کر رب کائنات کی رضا وخوشنودی کے حصول کی سبیلیں ہموار کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں علما اور اولیا کی کثیر تعداد رہی ہے اور یہ ذوات مقدسہ اصلاح امت کی روشنیاں بکھیرتے ہوئے خاتم الانبیا علیہ الصلوة والسلام کی نیابت کا حق ادا کرتی رہیں۔ حضور داتا صاحب نے بھی پوری زندگی لوگوں کے دلوں کو کندن بنانے اور افکار واذہان کو سیرت نبوی کا آئینہ دار بنانے میں مصروف کردی۔ یوں کہیں تو انسب ہوگا کہ آپ کے دور زریں میں غزنوی خاندان کے جواں مرد و دلیر فرماں روائوں نے فاتحانہ اور شاہانہ جاہ وجلال کے ساتھ ہزاروں قلعوں اور ممالک کو زیر نگیں کیا لیکن حضور داتا صاحب نے لوگوں کے قلوب کو تسخیر خیز فرما کر صاف وشفاف آئینہ اور عشق رسول کا مدینہ بنا دیا۔
٭٭٭