پاکستان کرکٹ بورڈ(PCB)کا قیام1949 میں ہوا تھا۔1952میں ایسےICCانٹرنیشنل کرکٹ کنٹرول میں شامل کر لیا گیا۔یہ ادارہPCBسےBCCP 1983میں بنا اور لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں اس کا آفس بنایا گیا۔جب سے اب تک اس کے چیئرمین(اعزازی اور تنخواہ دار)اور چیف ایگزیکٹو آفیسرCEO۔آئے اور تھوڑے تھوڑے عرصہ بعد چلے گئے جن کی تعداد آج کی تاریخ تک34ہے۔ان میں فوج کے صاحب اقتدار، سویلین اور کرکٹر کی بھی شامل ہے۔اور آج کی تاریخ میں احسان مانی چیئرمین اور وسیم خان CEOہیں۔BCCPکی سالانہ آمدنی390ملین ڈالر ہے۔کرکٹ کو یہاں تک پہچنانے اور بگاڑنے میں کھلاڑیوں کے علاوہ بڑے لوگوں، اور دو کوچ مصباح الحق کے علاوہ وقار یونس کے نام پیش پیش ہیں۔جنہوں نے بہت سے کھلاڑیوں کا مستقبل تباہ کیا ہے یا کر رہے ہیں۔بورڈ عوام(شائقین کرکٹ)اور میڈیا کی نظر میں ملزم رہا ہے۔بالکل اس طرے جیسے سیاستدان نے ملک میں لوٹ مار اور بدعنوانیوں کو عام کیا ہے۔جس کی وجہ سے عوام بھی کرپشن اور اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ایسا ہی کچھ کھلاڑی بھی ہیں۔جو کرکٹ کے گاڈ فادر سے خفا ہونے کی وجہ اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔وقار یونس پر یہ الزام کافی ہے کہ اس نے شاہد آفریدی، رزاق، عمراکمل، شعیب مقصود، شعیب اختر، اور احمد شہزاد کے بعد محمد عامر کے پیچھے ہیں۔یہ لڑائی ایک کمزور کرکٹر اور سفارشی وقار یونس کے درمیان ہے نتیجہ سفارشیوں نے حق میں رہا ہے اور تماشہ دیکھنے والے اوپر کے لوگ ہیں کچھ چیئرمین اورCEOایسے بھی ہیں جنہوں نے کرکٹ کے بلے اور بال کو چھوا بھی نہیں ہے۔اور وہ کھلاڑیوں کا چناﺅ کرتے ہیں اور ملک کے وقار کو داﺅ پر لگاتے رہے ہیں۔انہوں نے کبھی کسی سے کوئی سبق نہیں سیکھا ،رتبوں کی دیوی ان پر مہربان رہی۔احسان مانی کو دو سال ہونے کو آئے لیکن انہیں مندرجہ بالا باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں کہ390ملین کی خطیر رقم سے بورڈ کے ناکارہ لوگوں کے پیٹ بھر رہے ہیں۔جس طرح عمران خان کے مخالفین پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے نکل آئے ہیں عمران خان بے بسی کے عالم میں تماشہ دیکھ رہے ہیں وہ اچھے بالر ہوتے ہوئے بھی محمد عامر اور وقار یونس کے درمیان نوک جھونک کو ختم نہیں کروا سکتے۔بورڈ کی تشکیل میں محمد علی بوگرہ، سکندر مرزا، جنرل ایوب خان، جنسٹس اے آر کارنیلس، پاکستان ٹیم کے سب سے کامیاب کپتان عبدل حفیظ کار داد، ایرمارشل نور خاں، جاوید برکی، لیفٹیننٹ جنرل توقیر ضیائ، نسیم اشرف(صدر مشرف کے چہیتے سفارشی ٹٹو)اعجاز بٹ، کرکٹ مافیا کے ہیڈ اور اپنے دور کے ناکارہ کرکٹر اور دو دفعہ نجم سیٹھی شامل ہیں۔
2010 کا سال پاکستان کرکٹ کے لئے برا سال کہلایا جائے گا۔کہ جس میں میچ فکسنگ میں ٹیم کے کپتان سلمان بٹ، فاسٹ بالر محمد آصف، محمد عامر اور کامران اکمل شامل تھے۔اس وقت کے چیئرمین اعجاز بٹ نے کہا دفاع میں کہا یہ غلط ہے جب کہ خود اعجاز بٹ کو کورٹ میں بلوایا گیا۔کامران اکمل پر جرم ثابت نہیں ہوسکا لیکن کم عمر محمد عامر سلمان بٹ اور محمد آصف کی باتوں میں آگئے انہیں پانچ سال کی سزا ہوئی باقی محمد آصف اور سلمان بٹ ٹیسٹ کرکٹ سے باہر کردیئے گئے ایسا کیوں ہوا، ہم یہ ہی کہہ سکتے ہیں کہ بورڈ کی کھلاڑیوں کے ساتھ جو حرکات اور سلوک رہا ہے۔وہ خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں کہ کب انہیں ذاتی چپقلش کا نشانہ بنا کر ٹیم سے باہر کر دیا جائے وہ اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ بھی نہیں کرتے کہ بے دلی سے میدان میں اترتے دیکھا ہے۔پوری رات کا جاگا وکٹ کیپر کپتان وکٹ کے پیچھے نیند کے کشے میں کیا دکھائے گا کہ منیجر، کوچ اور دوسرے کھلاڑی سیاست کھیل رہے ہوں بجائے پاکستان کے لئے کھیلنے کے۔
کرکٹ بورڈ کو ہم ایک منظم مافیا کہیں گے اور اس میں اپنے اپنے شعبہ میں کئی گاڈ فادر ہیں۔اور ایسی کھینچا تانی میں جو انتظامیہ اور کچھ اچھے کھلاڑیوں کے درمیان ہوتی رہی ہے۔جس کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔کہ2016میںT-20میچ میں پاکستان کو انڈیا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سے ہارنے کے بعد باہر کر دیا گیا تھا جس کی ذمہ داری وقار یونس نے اپنے چھ صفحے کی رپورٹ میں قبول کی تھی۔احمد شہزاد اور عمر اکمل پر دو دو سال کی پابندی لگائی گئی تھی۔2010میں ہی انگلینڈ کے دورے پر پاکستانی ٹیم نے نئے اور کامیاب وکٹ کیپر ذوالقرنین حیدر اسی سیاست کا نشانہ بنے تھے اور اس نے لندن میں سیاسی پناہ مانگی تھی۔حیدر کے کہنے کے مطابق اس کی فیملی کو دھمکیاں مل رہی تھیں وہ صرف تین ماہ بعد ہی ناکارہ انتظامیہ کے ہاتھوں بولڈہوگیا تھا یا نوجوان ہونے کے ناطے وہ اپنا دفاع نہ کرسکتا تھا۔آفریدی، شعیب اختر چونکہ ان سے زیادہ ہوشیار اور سمجھدار تھے لہذا آخر وقت تک مقابلہ کرتے رہے۔
اس سیاست کا حالیہ شکار محمد عامر ہے جس کی کارکردگی اس کی سزا کے بعد کم ہوئی تھی لیکن انتظامیہ کے منفی رویے اور دوسرے کھلاڑیوں کی طنز یہ باتوں کو برداشت نہ کرسکے اور انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائر ہونے کا اعلان کردیا جس پر دوسرے کھلاڑیوں نے جو وقار یونس سے تنگ تھے اپنے اپنے بیان میں کہا ہے خیال رہے محمد عامر کے لئے انڈیا کے ویرات کوہلی نے کہا تھا”عامر مشکل ترین بالر ہے اور عامر نے پاکستان کو فتوحات دلوائی ہیں۔سہیل تنویر نے محمد عامر کو ہار نہ ماننے کا مشورہ دیا ہے۔آفریدی کا دعویٰ ہے کہ مصباح اور وقار نے عامر کے ساتھ زیادتی کی ہے شعیب اختر خود بھی مخالف کے لئے دہشت ناک بالر رہے ہیں انکا کہنا ہے کہ عامر کو میرے انڈر دیں اور پھر دیکھیں کمال، افسوس کہ پاکستان کو جیت دلانے والا مینجمنٹ سے ہار گیا۔آفریدی نے یہ بھی کہا کہPCBکو اپنے رویئے میں بہتری کی ضرورت ہے وہ کھلاڑیوں کے ساتھ عزت سے پیش نہیں آتا۔محمد عامر کو ضائع نہ کیا جائے۔آفریدی کا کہنا ہے عامر کا کرکٹ چھوڑنے کا فیصلہ درست ہے عاقب جاوید کا کہنا ہے عامر کی توجہ لیگز پر ہے۔نوجوان کرکٹرز عامر کے کیرئز سے سبق سیکھیں مطلب جو زبان کھولے گا اس کا انجام یہ ہی ہوگااور پاکستانی شائقین کو اچھی کرکٹ دیکھنے کو نہیں ملے گی۔اچھے کھلاڑی کی پہچان صرف اچھا کھلاڑی ہی جانتا ہے۔915ملازمین پرمشتملPCBایک ایسا ادارہ ہے جہاں سب کی نظریں پاکستان کے وقار سے زیادہ اپنی ذات کے فائدے پر ہیں اوریہ ہی کرکٹ کی تباہی کا سبب ہے کہ نیوزی لینڈ سے دوT-20ہار چکا ہے کئی کھلاڑی زخمی ہیں بغیر کھیلے۔
٭٭٭٭