پوری دنیا کرونا کی وباءمیں مبتلا ہے۔ کرونا وائرس کی دوسری لہر زیادہ خطرناک اور تیزی سے پھیل رہی ہے۔ انگلینڈ کو مکمل طور پر بند کرنے کا کہا گیاہے۔ کرونا وائرس کی دوسری شکل سامنے آچکی ہے۔ امریکہ میں تین لاکھ سے زیادہ اموات ہوچکی ہیں۔ ہاسپیٹلز میں لوگوں کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔ تقریباً پونے دو مِلن لوگ پوری دنیا میں جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ آٹھ کڑوڑ لوگوں کو یہ مہلک بیماری لگ چکی ہے۔ اس کی ویکسین کے بارے controversial گفتگو بھی چل رہی ہے۔ بحرحال پورے امریکہ میں فور فرنٹ ورکرز، ڈاکٹرز،نرسیز ،آفیسرز کو پہلے مرحلہ میں ویکسین فراہم کردی گئی ہے۔ دوسرے مرحلہ میں نوے ملین افراد اس سے استفادہ حاصل کر سکیں گے۔کورونا وائرس کے خوف کی وجہ سے سکولز بند ہونے سے بچوں کی پڑھائی پر اثر پڑا ہے۔ ائیر لائنز ،ہوٹلنگ ، کنسٹرکشن اور ریسٹورینٹ کا بزنس تقریباً ٹھپ ہو چکا ہے جس سے معیشت ب±ری طرح متاثر ہوئی ہے۔ کنسٹرکشن کا بزنس جب ترقی کرتا ہے تو تمام بزنس بوم کرتے ہیں۔ جو اس وقت متاثر ہے۔ مشکل کی اس گھڑی میں لوگ اپنی جابز سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ، ہزاروں چھوٹے بزنس بندہو چکے ہیں۔ لوگ مشکلات کا شکار ہیں ۔فیڈرل اسٹیٹ اورسٹی گورنمنٹ نے پریشان حال لوگوں کے لئے فری فوڈ اور گراسری کا جگہ جگہ انتظام کیا ہے تاکہ لوگ مشکل حالات میںsurvive کرسکیں۔فیڈرل گورنمنٹ نے ہر ایک بالغ کو بارہ سو ڈالرز کا پیکج دیا ہے اور اب ایک بار پھر چھ سو ڈالرکا چیک مل رہا ہے۔ un ۔ employment تین سو ڈالر ویکلی گیارہ ہفتوں تک دوبارہ ریلیف دینے کا کہاگیا ہے۔ آپ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں یہ امدادی چیک آپ سب کا حق ہے۔ لوکل چرچ اور مساجد مقامی لوگوں کی بھرپور مدد کررہے ہیں۔ نیویارک کی لوکل آرگنائزیشنز بھی لوگوں کی خدمت میں پیش پیش ہیں۔ ایسے ہی پاکستانیوں کی ایک بڑی آرگنائزیشن(برانکس کمیونٹی کونسل) نے گزشتہ فروری سے دیسی فیملیز میں دیسی گراسری کی تقسیم جاری رکھی۔ کمیونٹی کے ضرورت مند افراد میں گراسری،فروٹ ،سبزیاں ،دودھ وغیرہ کی ترسیل جاری رہی۔برانکس کمیونٹی کونسل نے گزشتہ نو ماہ میں فری ماسک کی تقسیم کا بڑے پیمانے پر اہتمام کیا۔ ہر ماہ مختلف مساجد اور کمیونٹی کے افراد میں تقسیم کئے جاتے ہیں، برانکس کمیونٹی کونسل کی لیڈرشپ نے سٹی کے پانچوں بوروز میں فری اینٹی باڈی اور فری کرونا ٹیسٹ کے درجنوں ایونٹس کئے ہیں۔ جنوری اور فروری میں مزید پچاس ایونٹس کئے جاینگے۔ برانکس کمﺅنٹی کونسل کے ذمہ داران ، فاو¿نڈر شبیرگل ، چئیرمین راجہ ساجد، سکریٹری نعیم بٹ، چیف پیٹرن طاہر خان، فنائس سیکرٹری چوہدری عامر رزاق، وائس پریذیڈنٹ کمﺅنٹی افئیرز عدیل گوندل، وائس پریذیڈنٹ شاہد اعجاز ،م±نیر پاشا،پروفیسر خنیف چوہدری، پروفیسر حماد خان،امام شبیر خان،مفتی بخش،امام مرسلین،امام ڈاکٹر شفیق چیس ،سسٹر نور، ولی اللہ ،خفیظ الدین اور برادر محمد دین نے کمیونٹی کو ڈور ٹو ڈور فری گراسری، ماسک اور اشیاءضرورت کی چیزیں پہنچانے کا اہتمام تواتر سے کر رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتوں میں برانکس کمیونٹی کونسل نے لوکل کمیونٹی، لوکل پریسنٹ اور دیگر کمیونٹی آرگنائزیشنز کے ساتھ ملکر گیارہ مقامات پر ہزاروں افراد میں ٹرکی تقسیم کیں اور ابھی کرسمس کے آتے ہی آٹھ مقامات پر تقریباً چھ سو کھلونے ،کپڑے اور تحائف بچوں میں تقسیم کئے۔اس موقع پر ایڈون اور شبیر گل نے سانتا کلاز بن کر بچوں کو انٹرٹین کیا۔برانکس کمیونٹی کونسل لوکل چرچز اور کمیونٹی آرگنائزیشنز کے ساتھ ملکر ،گن وائلنس ، سٹریٹ کرائمز کے خلاف واک اور ریلیز کا اہتمام کرتی رہتی ہے۔
قارئین! امریکہ اور دیار غیر میں پاکستانی پالیٹکس نے آپس میں بھائی چارے کءفضا کو خراب کیا ہے۔ نفرت اور تعصب کا ماحول دیا ہے۔ س±لجے ہوئے لوگ اور معتدل فیملیز پاکستانی فیملیز سے فاصلہ رکھنے پر مجبور ہیں۔ نائن الیون ہوا تو پاکستانی کمیونٹی نے ایکدوسرے کی شکایات کیں، جس سے کمیونٹی کے داغدار لوگوں کی شکایات کیوجہ سے ہزاروں فیملیز تقسیم ہو گئیں۔
ہمارے درمیان کریمینل مائینڈ سیٹ کے گرے ہوئے لوگ موجود ہیں۔ جن کا وطیرہ صرف فراڈ ہے۔ کریڈٹ کارڈ فراڈ اور دو نمبر طریقہ سے پیسہ کمانے کی حرص نے ہمارا اخلاقی امیج خراب کیا۔میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایکدوسرے کی عزت پر حملے ، فیملیز کی بے عزتی ،اپنے ذاتی عناد اور نفرت کو دشمنی کی حد تک لے جانا ،گھر کی عورتوں پر رکیک حملے کرنا ہماری اخلاقی پستی ہے۔ چند بے حیائ، بے شرم اور پلید افراد نے کمﺅنٹی کو پریشان کر رکھا ہے۔ ایسے غلیظ افراد ہمارے معاشرے پر بدنما داغ ہیں۔ سینئر اورسنجیدہ لوگوں نے کمﺅنٹی اور سوشل میڈیا میں پھیلے گند اور ایکدوسرے کی توہین کی وجہ سے اپنی سرپرستی اور شفقت کا ہاتھ اٹھا لیاہے۔
ہم نہ اپنی عورتوں کا احترام کرتے ہیں اور نہ ہی ایکدوسرے کی فیملیز کو عزت دیتے ہیں۔ جس کا نقصان ہماری نسل اٹھا رہی ہے۔ ہم دیار غیر میں دست و گریبان ہیں۔ اپنی اوقات بہول چکے ہیں۔ کمﺅنٹی کی لیڈر شپ جاہلوں کے ہاتھ میں ہے۔ مساجد کی کمیٹیاں ان پڑھ اور دین سے نابلد لوگوں کے ہاتھ میں ہے جس کی وجہ سے آج ہماری نوجوان نسل ہمارے ہاتھ سے نکل رہی ہے۔ اسکے ہم سبھی مجرم ہیں۔ ہماری انا پرستی نے ہمارے اخلاقی تشخص کو داغدار کیا ہے۔ ابھی کچھ نہیں بگڑا ، ہمیں آج بھی اپنی نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے نئی جنریشن کے ساتھ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ انکے لئے ورکشاپس قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ خدارا مل بیٹھ سنجیدگی سے اپنے بچے اور بچیوں کے رشتوں کے لئے حل ڈہونڈیں۔خضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ± کا فرمان ہے کہ اپنی سوچوں کو ماں باپ کی سوچوں سے بہتر مت سمجھو۔ ہمیں اپنی سوچوں کو ماں باپ کی سوچوں کے تابع کرنا چاہئے۔آج ہمیں اپنے بچوں کو یہ بات سکھانے کی ضرورت ہے۔ بچوں سے کمیونیکیشن کی ضرورت ہے۔ ماں باپ کے سامنے عاجزی کا سبق پڑھانے کی ضرورت ہے۔ والدین کو اپنے بچوں کے لئے مساجد میں سٹڈی سرکل، سوشل اور کمیونیکشن گیب فل کرنے کا میکنیزم قائم کرنا چاہئے۔ مساجد کو کمﺅنٹی سینٹرز کی طرز پر آپریٹ کرنا چاہئے۔دانشور ،ادیب ،علماء اکرام، بزنس کمﺅنٹی اور کمﺅنٹی رہنماو¿ں کو مل بیٹھ کر اسکا حل تلاش کرنا چاہئے۔ ہماری نسل اپنے کلچر اور ثقافت کے ساتھ وابستہ رہے گی تو ہماری میلوں ،ٹھیلوں اور پاکستان پالیٹکس چلے گی۔ وگرنہ آئینہ دس بیس سال بعد ہم اپنے نظریہ اور کلچر سے دور ہو سکتے ہیں۔ برانکس کمﺅنٹی کونسل آئیندہ چند ہفتوں میں اسٹیٹ لیول کی زون کانفرس بلا رہی ہے تاکہ کوئی مشترکہ تجاویز کی روشنی میں کام آگے بڑھایا جا سکے، اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
٭٭٭