اسے اپنا کام کرنے کی بہت جلدی تھی، وہ ہر کام بہت تیزی سے کرتا،وہ آندھی کی طرح آتا،ماحول پر چھا جاتااورمحفل کو غلام بنا دیتا۔آج ساری کمیونٹی آنسوﺅں میں بھیگی ،ہر شخص رو رہاہے، آسمان بھی رو رہاہے۔ سلیم ملک کی موت پر محسوس ہو ا کہ اس نے جوکمایا،وہ سب کمیونٹی کی نظر کر دیا ، شایدکسی اور نے اتنی کمائی نہ کی ہو ،دو دن سے شہر خاموش ،ہر آنکھ اشکبار ،ہرشخص پریشان ،ہر اک درد میں ہے۔ کمال آدمی تھا وہ ہر ایک سے ا±نس ومحبت رکھتا۔ا±سکا جنازہ اس بات کا غماز ہے کہ وہ ہرشخص سے محبت رکھتا تھا اور ہر شخص اس سے محبت رکھتا ہے۔متوسط آدمی تھا مگر بڑے دل کا مالک تھا ، ہر پروگرام کی زینت تھا ، ہر پروگرام میں برابر کنٹری بیوٹ کرتا۔زیادہ تر کنکٹی کٹ میں کام کرتا۔مجھے اکثر شام کام سے واپسی پر گزرتے ہو ئے کال کرتا اور کہتا میں آرہاہو ں ،کھانا اکٹھے کھائینگے اور بل میں دونگا،میں کہتا آپ میرے مہمان ہیں۔ تو مسکرا کے کہتا کہ آپ میرے بھائی ہیں ، کمیونٹی کے مسائل پر سیر حاصل گفتگو کرتا ، ایک ایک دن میں کئی کئی پروگرام اٹینڈ کرتامگر کبھی تھکن کے آثار نہیں دیکھے۔سلیم ملک ہمدردی کا جذبہ ہر ایک کےلئے رکھتا ، ہر ایک کے لئے محبت اور ہر ایک کےلئے درد ا±س میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔مجھے اکثر کہتا تم جذباتی آدمی ہو ، بلڈ پریشر کے مریض ہو ، اپنا وزن کم کرو ، کیا پتہ کہ لوگوں کی فکر کرنے والا اپنی صحت سے بے فکر ہے لیکن موت تو ہر اک کو آنی ہے،موت کا ذائقہ ہر اک نے چکھنا ہے۔وہ ایک ہی وقت میں کئی صلاحیتوں کا مالک تھا، لکھاری بھی تھا ،ٹی وی اینکر بھی تھا، ادیب بھی تھا اور مقرربھی۔بات کرنے کا ڈھنگ اور سلیقہ رکھتا تھا۔ پاکستانی اور سکھ کمیونٹی میں ایک برج تھا۔ سکھ کمیونٹی کے بڑے رہنماءڈاکٹر امر جیت سنگھ کا کہنا ہے کہ سلیم ملک پاکستان اور سکھ کمیونٹی کے درمیان ایک پ±ل تھا۔64 چینل پر پنجابی پروگرام کرتا۔ کمال کی پنجابی بولتا۔ میں نے کہا ملک صاحب آپ اردو اسپیکنگ ہیں پنجابی کہاں سے سیکھی۔ تو ہنس کے کہتا ہے کہ میں بنیادی طور پرپنجابی ہو ں۔سلیم ملک جو انتہائی انتھک اور کہنہ مشک شخصیت کا مالک تھاجو دل میں ہو تا وہ دھڑلے سے کہتا، دل میں بوجھ نہیں رکھتا تھاجس سے اختلاف ہو تا اس کا برملا اظہار کرتا ،نہ کسی سے دبتا، نہ کسی کے آگے جھکتا اور نہ ہی کسی کو اپنے اوپر مسلط ہو نے دیتا۔ہر غم کو ہنس کے سہتا،آہ وہ کیا شخص تھا !
سلیم بھائی سے میری صبح بحث ہو تی رات وہ کال کرکے گلے شکوے ختم کر کے سوتا۔ یار وہ کیا شخص تھا، بات دل میں نہیں رکھتا تھا۔ ایک وقت میں کئی صلاحیتوں کا مالک تھا۔جرآت مند اور دلیرشخص تھا۔ آج صبح ا±س کی موت کی خبر س±ن کر میری ہچکی بندھ گئی۔ مجھے جسم س±ن محسوس ہو ا ، آج سارے الفاظ ختم ہو گئے۔ کچھ کہنے کو باقی نہیں رہا۔ میرے پیارے اللہ ا±س کی کمیونٹی کےلئے خدمات کو قبول فرمائیں۔بس یار یہ زندگی ہے۔ اے اللہ ، ایک دوسرے کو معاف کرنے کا جذبہ عطا فرما۔کچھ لوگ سلیم ملک کی موت کو بھی اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہ ررہے ہیں ، چار بچوں کا باپ تھا۔ جذباتی اور دل کا کھرا شخص تھا۔جو لوگ اُس کی لاش کے ساتھ کھیل رہے ہیں وہ خوف خدا سے عاری ہیں، کمیونٹی کو اس پر سنجیدگی سے سوچنا چاہئے، کہ آیا ایسے گندے انڈوں کو اپنے پروگراموں کا حصہ بنا کر مزید گندگی کو رواج دینا ہے۔ یا کمیونٹی کو اس گندسے نکالنا ہے۔ ٹرائی اسٹیٹ کی ادبی، سماجی، سیاسی پروگراموں کا ح±سن تھا، پاکستان ، کشمیر ،ہیومن رائٹس کے پروگرامز میں اپنے بچوں اور فیملی کے ساتھ شرکت کرتا۔ کمیونٹی میں اس جیسا انتھک اور بے باک شخص کوئی نہیں تھا ،پاکستان سے اسے عشق تھا ، کوئی پریڈ یا میلہ ایسا نہیں تھا جہاں بچوں کے ساتھ شرکت نہ کرتا۔ وہ یاروں کا یار اور دوستوں کا دوست تھا ، وہ ہر ایک کو جانتا اور ہر ایک سے تعلق رکھتا تھا ، اس لیے سلیم ملک کی موت پر پوری کمیونٹی سوگوار ہے اور تڑپ اٹھی ہے۔
امریکہ میں مجھے اٹھائیس سال ہو گئے،دو افراد کی اموات نے کمیونٹی کو ہلا دیا۔ ایک احمد جان کے بھائی عبید الرحمان کی چند سال پہلے اچانک موت اور اب سلیم ملک کی اچانک موت نے ہر شخص کو غمزدہ کر دیاہے۔ اس ہفتے کالم نہیں لکھنا چاہ رہاتھا لیکن اخبار نویس اور ایڈیٹر کے اصرار پر لکھ رہاہو ںمگر الفاظ نہیں مل رہے ، کیا لکھو ں، معوذ صدیقی ائیرپورٹ پر لینڈ ہو ا، میں نے کال کی تو رو پڑا ،کہنے لگے یار میرے ساتھ مذاق نہ کرو، مجھے یقین نہیں آ رہا۔ ڈاکٹر شفیق کا کہنا ہے کہ الفاظ کی تلاش نہیں ہو رہی کہ اس لاجواب شخص کے بارے میں کیا کہوں۔ نعیم بٹ صاحب کی آنکھو ں میں آنسو تھے کہہ رہے تھے مجھے یقین نہیں آرہا۔ پروفیسر حماد خان کی آنکھو ں میں آنسو تھے۔ طاہر میاں اور فضل حق جو بچوں کی طرح رورہے تھے، خورشید بھلی اور شاہد اعجاز کو درد اور غم میں ڈوبا پایا۔
سلیم ملک کی موت کی خبر ملتے ہی دوستوں کی ٹیلیفون کالز کا تانتا بندھ گیا،مجیب لودھی صاحب اور فرخ کو غمناک پایا، سب یہی کہہ رہے تھے کہ الفاظ نہیں مل پا رہے۔ پوری کمیونٹی معوذ صدیقی اور اکنا ریلیف کی شکرگزار ہے کہ جس نے آگے بڑھ کر ہمارے دوست سلیم ملک کی فیونرل سروسز کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ ہماری اکنا سے گزارش ہے کہ سلیم ملک کی فیملی کے لئے فنڈ ریزنگ کا بندوبست کرے کیونکہ سلیم ملک ہماری کمیونٹی کا سرمایہ تھا، کمیونٹی کی جان تھا، کمیونٹی کی آن، بان اور شان تھا۔ کمیونٹی کو چاہئے کہ ایک ایسا فنڈ قائم کیا جائے ، جس سے سلیم ملک جیسے محب وطن پاکستانی کے ا±ٹھ جانے کے بعد ان کی فیملی کو سپورٹ کیاجا سکے۔
میری اجمل چوہدری،معوذ صدیقی ، ڈاکٹر اعجاز احمد،ڈاکٹر چڈا، ڈاکٹرپرویز اقبال،نعیم بٹ ، عامر رزاق، ڈاکٹر نعیم، طاہر میاں،ڈاکٹر جمشید خان، ناصر اعوان، ٹیپو شیخ،خورشید بھلی، شاہد اعجاز، طاہر خان،مرزا خاور بیگ، تاج اکبر، اور ایسے ہی متحرک لوگوں پرمشتمل کمیٹی بنانی چاہئے جو اسطرح کے کمیونٹی کے ایکٹوسٹ حضرات کی فیملیز کے بوقت ضرورت کام آسکے جنہوں نے ساری زندگی کمیونٹی کے نام وقف کی ہو جن کا اوڑھنا بچھونا ہماری کمیونٹی ہو جن کا درد کمیونٹی ہو ۔ ا±سکی” دوا“ بھی کمیونٹی کو ہو نا چاہئے۔
اللہ رب العزت ہمارے بھائی سلیم ملک کی مغفرت فرمائے، تمام کوتاہیوں پر صرف نظر فرمائے۔ قبر کی آخری منازل میں آسانیاں پیدا فرمائے۔ جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے۔ (آمین)آہ !سلیم ملک ، ایک دوست کی حیثیت سے گلہ رہے گا کہ زندگی بھر اسٹیج پرتقریریں اور اعلانات کرنے والا خود اپنی باری کا اعلان کئے بغیرہی چلاگیا، بلا اپنوں کے ساتھ کوئی ایسے کرتاہے کیا!
٭٭٭