”کلُّ نفسِ ذائِقة الَموُت“ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔سلیم احمد ملک اس دنیا سے چلا گیا ، پیر کی صبح یہ خبر نیویارک میں لمحہ بہ لمحہ بڑھتے ہوئے ٹریفک کی مانند پھیل گئی ۔ مجیب لودھی صاحب کا فون آیا ۔ دوسری جانب بھرائی ہوئی آواز تھی ”کامل بھائی سلیم ملک کا انتقال ہوگیا “ بس اتنا اور میں ان کے ساتھ ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں ایک کمرے میں بیڈ پر دنیا سے بے خبر سلیم احمد ملک کو دیکھ رہا تھا ۔ شاید وہ تھک کر سوگیا ہے ۔ ابھی اٹھے گا اور کہے گا ”کامل بھائی بھولنا نہیں،آج شام ٹیسٹ آف لاہور میں کشمیر سے متعلق میٹنگ ہے “۔اتنے کم عرصے میں سلیم ملک نے میرے دل میں ایک خاصی جگہ بنالی تھی کہ میں چاہوں تو اسکی روئیداد بیان کرنے کے لیے ایک کتاب لکھ سکتا ہوں ۔ لائیو پروگرام میں شمولیت کے علاوہ تقریباً ہر ہفتہ میں سوشل میڈیا پر اُسے دیکھتا اور سنتا رہتا تھا ۔ ہر ہفتے اس کا بے باک کالم پڑھتا تھا، صرف اسی کا کالم ایسا تھا جو نیویارک کے قرب وجوار میں ہونے والی سرگرمیوں کا احاطہ کرتا تھا ۔ کھل کر تنقید اور سچ بات بے دھڑک لکھتا تھا ۔ اسے جھوٹ اور منافقت سے نفرت تھی اور میں نے سلیم ملک کو ہمیشہ ہر معاملے میں سچ سے جڑا دیکھا ۔ وہ اکیلا تھا بظاہر وہ اپنے اردگرد انجمن سجائے رہتا تھا ۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ سچ کی مانند وہ تنہا تھا، اس زمانے میں وہ ماحول کو بدلنا چاہتا تھا ، وہ دوسروں کو اپنی طرح سمجھتا تھا ، بدلنا چالتا تھا ۔ ایسا کرنے میں اس نے ہر لمحہ ، ہر روز قربانیاں دی تھیں اور میری طرح دوسرے دوست جو اس کو عزیز رکھتے تھے ، سمجھتے بھی تھے ، وہ بدلتے وقت اطوار اور رویوں کی تبدیلی سے ناواقف تھا یا نہیں لیکن وہ سمجھتا تھا دوسرے بھی سلیم ملک بن کر زندگی گزاریں ، کسی بھی تنظیم، ادبی ، سیاسی یا معاشرتی سب کے لیے وہ جیب میں ہاتھ ڈال کر جو کچھ ہوتا تھا دینے کی ضد کرتا تھا ۔ خود میں نے کئی بار طاہر خاں صاحب کے کہنے پر مالی تعاون لینے سے انکار کیا کہ حلقہ میں اس کی موجودگی کافی تھی ۔ وہ نیو جرسی یا کنیکٹی کٹ میںہوتا، تقاریب میں کار دوڑاتا ہوا وقت سے پہلے پہنچ کر انتظام کرنے میں شامل ہو جاتا تھا اور نظامت کرتا تھا ۔ اسکی نفرت پلک جھپکنے کی طرح تھی ، ٹوٹنا اس کے خون میں نہیں تھا ۔ اس دنیا کو اس نے دیکھا ، برتا اور پیار کیا ۔ ایک صبح خاموشی سے سب کو چھوڑ کر چلا گیا، اپنے محبوب سے ملنے۔ وہ ایک انقلابی تھا، صحافی تھا ، کالم نویس تھا ، یاروں کا یار تھا ایک بہتر خاندانی انسان تھا ، اپنی شریک حیات کو ہر آسائش فراہم کرنے کا خواہشمند، جذباتی تھا ، ہنستا تھا تو بہت اچھا لگتا تھا ، اسکی خاموشی اندر چھپے کسی طوفان کا پیش خیمہ تھی ۔ جذبات کا اظہار الفاظوں سے زیادہ چہرے سے کرنے کافن بھی جانتا تھا ۔ وہ مجھ سے اگر کبھی ناراض ہوا تو میں انتظار کرتا کہ وہ دوسری بار مسکراتا ہوا آئے اور کہے ۔”کامل بھائی وہ اس دن آپ کو لیٹ نہیں آنا تھا “اسکی خواہش ہوتی کہ میں اس کے ہر پروگرام میں شرکت کروں لیکن مقرر نہیں تھا ایک پروگرام میں جو PTIکا تھا مجھے اس نے خفگی سے کہا ”آپ کو میں جہاں بٹھاﺅں وہاں سے ہلنا نہیں ہے ، تھوڑی دیر بعد اس نے شاہ محمود قریشی کو لاکر میرے قریب خالی کرسی پر بٹھا دیا وہ چاہتا تھا میں بھی تصویروں میں نمایاں رہوں اور میں لاڈلے کی اس خواہش کا احترام کرتا تھا ۔ حالانکہ میں اسے کیا دے سکتا تھا ۔ میں اس کی ضرورت نہیں تھا بلکہ یہ کہنا سچ ہے وہ ہماری ضرورت تھا جیسا کہ میں نے کہا وہ ہر طرح سے انقلابی تھا ۔ ” دھوکہ دہی اور فریب کے عہد میں صرف سچ بولنا بھی ایک انقلاب ہے “جو اس نے بپا کیا ہوا تھا ۔ حال ہی میں کشمیر اور کشمیریوں پر انڈیا کے ظلم ، ناکہ بندی اور محاصرے کے خلاف اس نے حد سے زیادہ بھاگ دوڑ کی ، 25ہزار سے زائد افراد کا ہجوم اور سکھوں کی شمولیت میں اس کا بڑا کام تھا ۔ انتظامیہ کمیٹی کی بے ضابطگیوں کے خلاف اس نے احتجاجی قدم اٹھایا ، اسے کوئی غلط بات برداشت نہ تھی ،یہ شعر اس کے لیے ہے :
الجھے تو تلخیوں کی حد سے گزر گئے
چاہا تو چاہتوں کی حد سے گزر گئے
عرصے سے اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں اور شریک حیات کے ساتھ وہ پاکستان کا پرچم بلند کرتا رہا تھا ، دھوپ، بارش اور یخ بستہ سردی میں ۔ کیا ہم لوگ اس کی اس جدوجہد اور قربانی کا صلہ دے سکتے ہیں ؟جواب ہے ناممکن “وہ کبھی کبھی چاپلوس اور شاطر لوگوں کے لیے ایک جملہ کہتا تھا ۔ پنجاب میں
”سر تے ٹوپی تے نیت کھوٹی“
موت نہ ویکھے عمر نوں ، تے عشق نہ ویکھے ذات، بلھے شاہ نے یہ بھی کہا تھا ”ہر کوئی یار نہیں ہوندا بلھیا، کدی کلیاں بہہ کہ سوچ تے سہی ۔
اس نے عین جواں عمری میں دنیا چھوڑ دی ۔ شاید وہ دنیا کو کوئی اچھے رویوں کا پھل دیناچاہتا تھا ۔ جیسے ”پھل یا لوکی آنے سے پہلے پھول مرجھا کر اپنے پیچھے پھل اور لوکی کو زندگی دیتا ہے “ ۔ اگر سنجیدگی سے سوچیں تو میں یہی کہونگا کہ سلیم احمد نے پاکستان اور حالیہ کشمیر مسئلے کے حل کے لیے اپنی جان دےدی ۔ یا ممکن ہے اس نے کہیں پڑھا ہوگا ”یہ سننے کے لیے کہ آدمی اچھا تھا “ مرنا پڑتا ہے اور اب وہ سنتا رہے گا اور نہیں رہا ہوگا ۔ ہماری آنکھوں میں نمی رہے گی اس کی یاد سے یا وہ اس حقیقت کو جان چکا تھا ۔ ”موت زندگی کا پھلاﺅ ہے “ اسے یقین تھا ”موت زندگی کو تو ختم کرسکتی ہے لیکن رشتوں کو نہیں “ وہ ہمیں یہ بھی سکھا گیا کہ مرنے کے بعد ہمیشہ دلوں میں رہنے کے لیے کیا کرنا ہے ۔”یہ بھی کہ موت ہی زندگی کی ایجاد ہے ۔ اس سے کیوں ڈر ہو “۔ بہت کچھ ہے اس کی یاد میں لکھنے کے لیے ۔
ایک بار اس نے مجھ سے خواہش ظاہر کی تھی کہ میں اس پر کالم لکھوں اور مجھے جنیوا میں اقوام متحدہ کے دفتر میں ٹریننگ مکمل کرنے کی سند کی کاپی دی تھی ۔ یہ 1994ءکی سند ہے ۔ اس کی گریجویشن کی ، میں نے اس سے کہا تھا تمUNOمیں ملازمت کے لیے اس سند کو استعمال کرسکتے ہو ۔ اس کا جواب اس نے مسکرا کردیا تھا وہ چاہتا تو سفارت خانوں میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہوسکتا تھا ، وہ چاہتا تو نیویارک میں پبلک ریلیشن کی ملازمت لے سکتا تھا ۔ اس نے ایسا کیوں نہیں کیا ، اس کا جواب مجھے مل گیا تھا کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنے مشن کو آگے بڑھانا چاہتا تھا ، رویوں کو بدلناچاہتا تھا ۔
بے حد محبت کے بدلے ، بے حد نفرت دیتے ہیں یہاں کے لوگ
چل رب کے دروازے پر وہاں ایک آنسو کے بدلے خدا ملتا ہے
٭٭٭