ہم جو بوتے ہیں، وہیں کاٹتے ہیں !!!

0
177

27اکتوبر کو مولانا فضل الرحمان اپنی جماعت اور ”طالبان “کےساتھ ”آزادی مارچ“ پر پورے استحکام کے ساتھ قائم ہیں ۔ دوسری اپوزیشن جماعتیں جن میں مسلم لیگ (ن) اور زرداری لیگ ( سابقہ پی پی پی ) ابھی تک کھل کر اپنی پارٹی کا موقف نہیں دے رہی ہیں ان کے اکابرین جیل کے اندر ہیں ۔ جیل میں بند نواز شریف تو مولانا کا ساتھ دینے کے مکمل حق میں ہیں ۔ شہباز شریف ویسے بھی دھرنوں اور مارچ کے خلاف ہیں ۔ جب عمران خان کے دھرنے چل رہے تھے تو شہباز شریف نے بشمول نواز شریف کے دھرنو ںپر شدید تنقید کی تھی لیکن وہ اگر ان دھرنوں کا حصہ بنے تو ان کے دھرنے پر ان کو اپنی کہی ہوئی باتیں یاددلائی جائیں گی ۔ میڈیا انکی اس بات پر انہیں منافقت کا طعنہ دے سکتا ہے لیکن اندر کی بات ہے کہ ایک تو شہباز شریف شروع سے فوج کے ساتھ ٹکراﺅ کے خلاف ہیں ۔جیل سے کچھ عرصہ پہلے ہی باہر آئے ہیں کثیر النکاح آدمی ہیں ، طبیعت بھی آسودگی پسند ہیں جیل کی سختیاں اس عمر میں بار بارجھیلنا مشکل ہے ۔ دھرنے میں جانا جیل جانے کے مترادف ہے ۔ لاہور سے باہر اسٹریٹ پاور کمزور پڑتانظر آرہا ہے ۔ جماعت کو بھی ایک سینئر شریف کی ضرورت ہے ۔بڑے بھائی تو پہلے ہی اندر ہیں اگر وہ بھی قید کردئیے گئے تو پارٹی پر دوسرے عقابوں کا قبضہ ہونے کا بھی خدشہ ہے ۔ حمزہ شہباز اور مریم نواز کے درمیان اندرون خانہ کشمکش بھی چل رہی ہے ۔ اقتدار کے لئے دونوں بھائیوں کی اولاد ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں ہے ۔ آنے والا وقت فیصلہ کرے گا کہ مسلم لیگ (ن) کی سربراہی کا تاج کس کے سر پر رکھا جائے گا ۔ ادھر بلاول زرداری بھی ابھی تک والد اور پھوپھی کے ریموٹ کنٹرول کی رینج میں ہیں ۔ آصف زرداری ابھی بھی بلاول کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ وہ اہم فیصلہ کرنے میں آزاد ہو ۔ جیل میں رہ کر بھی وہ تمام فیصلے خود کررہے ہیں حالانکہ بلاول بھٹو زرداری ایک پڑھے لکھے اور سمجھدار سیاستدان ہیں اگر انہیں آزاد فیصلہ کرنے کی چھوٹ ہو تو وہ بہتر فیصلہ کرنے کی اہمیت رکھتے ہیں اور بلا شبہ انکے فیصلے زرداری ، بھائی اور بہن کے مقابلے میں کئی گنا بہتر ثابت ہوں گے ۔ لیکن کیا کہئے کہ آصف اور فریال نے جس طرح آہستہ آہستہ پی پی پی کو ایک قومی جماعت سے صوبائی جماعت میں تبدیل کیا ہے انکا کام ابھی اختتام کو نہیں پہنچا ۔ سندھ کی صوبائی حکومت بھی خطرے میں نظر آرہی ہے ۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ، سید خورشید شاہ کی گرفتاری کے بعد نیب کے نشانے پر ہیں اور خبر یہ ہے کہ انہیں کسی بھی وقت گرفتار کیا جاسکتا ہے ۔ جیل جھیلنا ویسے ہی کوئی آسان کام نہیں ہوتا اور وہ بھی فوجی جیل نہایت ہی تکلیف دہ کام ہوگا ۔ ویسے تو ہمارے خیال میں مراد علی شاہ خاندانی آدمی ہونے کے ناطے کبھی بھی ”مسعود محمود“ نہیں بنیں گے لیکن اگر ذاتی مراسم والے ڈاکٹر عاصم ٹوٹ جاتے تودیکھ کر کہاجاسکتا ہے کہ کوئی بھی پکے ہوئے پھل کی طرح ٹہنی سے ٹوٹ کر زمین پر گر سکتا ہے ۔ واللہ عاکم ثواب ۔مختصراً یہ کہ زرداری کبھی نہیں چاہیں گے کہ وہ دنیا بھر میں مولانا فضل الرحمان کی بی ٹیم (B Team) کہلوائیں ۔ ایک اعتدال پسند جماعت کے بجائے ایک انتہا پسندوں کی ساتھی جماعت کہلوائیں ۔ حالانکہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان انتہاپسند نہیں بلکہ حلوہ پسند مولوی ہیں ۔ جب تک حلوہ آتا رہے وہ حجرہ نہیں چھوڑتے ، حلوہ بند دنگل شروع ۔ آزادی اور جمہوریت سے مولانا کی مختصر جماعت کو کوئی سروکار نہیں ،جتنی بدعنوان ان مولانا کی جماعت کے وزراء( جو کہ ماضی کیں تمام حکومتوں کا حصہ رہے ہیں ) شاید ہی کسی جماعت کے وزراءہونگے لیکن انکے مدارس کے معصوم طلبا ہی انکی اصلی قوت ہیں ۔ یہ اسٹریٹ پاور شاید ہی کسی سیاسی جماعت کے پاس ہوگی ۔ مقامی امیروں کے طابع مدارس کے طلبا غیر سیاسی لیکن منظم فورس ہو گی ۔ عبرتناک بات یہ ہے کہ دھرنے کا رواج اور بنیاد کا سہرہ بھی عمران خان اور علامہ طا ہر القادری کے حصہ میں آتا ہے آج عمران خان کی حکومت کو خود ایک دھرنے کا سامنا ہے ۔ د یکھنا ہے کہ ایمپائر کی انگلی کب اور کس کے حق میں اٹھتی ہے ۔ مذہبی جماعتوں نے ماضی میں فوج کا بڑا ساتھ دیا ہے ۔ کیا فوج مدارس کے طلبا پر گولی چلا سکے گی ؟ اس سوال کا جواب وقت آنے پرہی ملے گا لیکن راقم نہیں سمجھتا کہ فوج عمران خان کی وقتی حکومت کو بچانے کے لیے مدارس سے طویل مدتی پنگا لینا پسند کرے گی ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here