ایران سعودیہ کشیدگی کے بعد خطے میں ہونےوالے اثرات اور خطرات کے پیش نظر خطے میں امن کے حوالے سے پاکستان کو عالمی برادری نے اہم ذمہ داری سونپی ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے مابین تعلقات کو کشیدگی سے پاک کرنے کےلئے پاکستان کی سفارتی کوششوں کا پہلا مرحلہ شروع ہے۔ اس مرحلے میں پس پردہ رابطوں شامل ہے۔ دوسرا معاملہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا ٹوٹا سلسلہ بحال کرنے کی کوششوں سے متعلق ہے۔ ملا برادر کی قیادت میں افغان طالبان کا وفد پاکستان میں امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کر چکا ہے۔ دونوں تنازعات امریکی مفادات سے جڑے ہوئے ہیں اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان قیام امن کے حوالے سے جو کردار ادا کر رہا ہے اسے امریکہ‘ چین اور روس کی حمایت ضرور حاصل ہے۔ پاکستان کی سفارتی تنہائی کی بات کرنے والوں سے یہ صورت حال تقاضاکرتی ہے کہ وہ اپنی رائے سے رجوع کریں اور اس تبدیلی کے منطقی اثرات کا کھلے دل سے تجزیہ کریں۔ کسی ریاست کی طاقت کے اجزا کئی ہوتے ہیں۔ آبادی اور افرادی قوت‘ حجم‘ معیشت ‘ فوجی طاقت اور جغرافیائی محل وقوع کو اس معاملے میں اہمیت دی جاتی ہے۔ عہد حاضر میں سکیورٹی اور معاشی ضروریات میں تعان کے ساتھ جس قدر آبادی ضروری ہے پاکستان کے پاس وہ موجود ہے۔ حجم بھی مناسب ہے۔ معاشی کمزوریاں فکر مندی کا باعث ہیں۔ اس سلسلے میں حکومتوں کی بری کارکردگی نے ریاست کے دوسرے شعبوں کی طاقت پر بھی اثر ڈالا ہے۔ بلاشبہ پاکستان کا جغرافیہ اس کی بین الاقوامی حیثیت کو اہم بنانے کا ایک سبب ہے۔ آزادی کے وقت کانگرسی قیادت اور انگریز کا خیال تھا کہ تقسیم شدہ پنجاب اوربنگال پاکستان کو اپنے پاﺅں پر کھڑا نہیں ہونے دیں گے۔ انگریز کو ایک خدشہ یہ تھا کہ بھارت اور روس کے مقابلے میں ایک چھوٹا سا ملک جو معاشی طور پر بہت کمزور ہے زیادہ عرصہ ان بڑے ملکوں کے مقابل کھڑا نہیں رہ سکے گا اور دونوں اس کے حصے بخرے کر کے ہڑپ کر لیں گے۔ بڑی طاقتوں کی بھارت کے ساتھ مل کر ریشہ دوانیاں جاری رہیں۔ مشرقی پاکستان کا بازو کٹ گیا لیکن اس کی بڑی وجہ جغرافیائی دوری تھی۔ موجودہ پاکستان طاقت اوراہمیت کا حقدار ہے۔ دنیا کو تنازعات سے پاک کرنے کے لئے اہل مغرب نے اقوام متحدہ کا ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے نے افریقہ اور ایشیا کے غریب ممالک کو جنگوں سے بچانے کےلئے قابل ذکر کردار ادا نہیں کیا تاہم ان علاقوں میں سماجی ترقی کے لئے اقوام متحدہ کا کردار قابل تعریف ہے۔ سوویت یونین کے توسیع پسندانہ عزائم دنیا کے لئے خطرہ سمجھے جاتے تھے۔ افغانستان پر سوویت قبضہ پورے خطے کو جنگ کے تنور میں پھینک رہا تھا۔ یہ خطرہ امریکہ جیسی طاقت سے سنبھالا نہ جا رہا تھا۔ پاکستان نے افغان قوم کے شانہ بشانہ سوویت افواج کا مقابلہ کیا۔ سوویت انہدام اور انخلا کے بعد امریکہ جب افغانستان کو بے یارو مددگار چھوڑ گیا تو یہ پاکستان تھا جس نے مجاہدین کے درجنوں دھڑے اور گروپ ایک میز پر بٹھا دیے۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی تو پاکستان کے بغیر امریکہ اور نیٹو کے ممالک اس شورش زدہ ملک میں پاﺅں رکھتے ہوئے گھبراتے تھے۔ اٹھارہ سال تک افغان طالبان نے امریکہ کا مقابلہ کیا ہے۔ امریکہ اس جنگ میں کھربوں ڈالر گنوا چکا ہے۔ اسے اپنی عالمی ساکھ بچانے کی فکر دامن گیرہے۔ بھلے بھارت کی تجارتی منڈی سے امریکہ کے سینکڑوں مفادات جڑے ہیں مگر افغانستان کے تنازع سے اگر وہ آبرو مندانہ انخلا نہیں کرتا تو اس کے لئے یہ بہت بڑا دھچکا ہو سکتا ہے۔ عالمی سطح پر اس کی کمزوری اور ناکامی کا تاثر پھیلے گا۔ لاکھ شکایات کے باوجود پاکستان آج بھی خلوص نیت سے چاہتا ہے کہ امریکہ اپنا مزید نقصان کیے بغیر افغانستان سے اس طرح رخصت ہو کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک اس کے لئے خیر خواہی اور خیر سگالی کے جذبات محسوس کریں۔ صدر ٹرمپ کی خواہش پر پاکستان نے طالبان کو امریکہ سے مذاکرات پر راضی کیا۔ دونوں کے درمیان دوحہ میں مذاکرات کے نو ادوار ہوئے۔ چند ہفتے قبل صدر ٹرمپ نے مذاکرات کے دوران حملے بند نہ کرنے کا جواز پیش کر کے طالبان سے مذاکرات کا سلسلہ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان نے امن پسند دنیا کو مایوس کیا۔ امریکہ کے پاس بہرحال اس کے سوا اب کوئی انتخاب نہیں کہ وہ طالبان سے مذاکرات کر کے افغان تنازع کا حل تلاش کرے۔ دوحہ میں پاکستان بطور مبصر مذاکرات میں شریک نہیں تھا۔ پاکستان میں افغان طالبان اور زلمے خلیل زاد کی سربراہی میں آنے والے امریکی وفد کے درمیان مذاکرات میں پاکستان کے بطورمبصر موجود رہنے کی اطلاعات ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ افغان تنازع کے حل کے لئے پاکستان کی کوششوں اور تجاویز کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے مابین کشیدگی پاکستان کے لئے فکر مندی کا باعث ہے۔ وزیر اعظم عمران خان سے کشمیر پر ثالثی کا وعدہ کرنے والے صدر ٹرمپ نے انہیں ایران کے ساتھ تنازع ختم کرانے کے لئے کہا۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان بھی اس کشیدگی کو امت مسلمہ کے لئے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ ایرانی قیادت پہلے ہی پاکستان کی مصالحانہ کوششوں کی حمایت کا اعلان کر چکی ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے مابین رابطوں کا آغاز اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ مشرقی وسطیٰ کو مزید باہمی جھگڑوں سے کسی قدر محفوظ بنایا جا سکے گا۔
٭٭٭