عامر بیگ
مغلیہ دور میں جاسوسی کے لیے خانہ بدوشوں کو بھرتی کیا جاتا تھا جو چلتے پھرتے اندر کی اور ادھر کی خبریں ادھر دیتے رہتے اور کوتوالی ڈائریکٹ آرڈر لیکر انتظامیہ کا معاون بنتا تھا انگریز دور میں جاسوسوں کو بڑی بڑی اراضیاں الاٹ ہوئیں ،اخباروں پر نظر رکھی جاتی تھی ریڈیو تو چلتے ہی حکومتی کنٹرول میں تھے، فلموں پر بھی سنسر شپ تھی ، پاکستان بننے کے بعد زیادہ تر میڈیا کنٹرول میں ہی رہا ہے، شروع کی فوجی حکومت نے اخباروں و فلموں میں سنسرشپ کی پالیسی اپنا لی، کسی کو بھی چوں چرا ںکرنے کی آزادی نہیں تھی ۔شاید یہ اسی گھٹن کا نتیجہ تھا کہ ہم اپنے ملک کا ایک بڑا حصہ گنوا بیٹھے ،لاوہ اندر ہی اندر پکتا رہا ،حکومتوں کو سب خبر تھی لیکن مداوہ نہیں ہوسکا ،سنسر پالیسی سول حکومتوں میں بھی چلتی رہی ،مشرف دور تک نو بجے کا خبرنامہ ہی چلتا تھا، مشرف دور کے ایک کھلے ڈھلے وزیر نشریات و اشاعت شیخ رشید کے مشورے چاپلوسی اور انٹرنیٹ کے آ جانے سے بہت سے چینلز کھول دئیے گئے، انفارمیشن کا سیلاب ا±مڈ آیا ،صحافت جو کبھی ایک مشن سمجھی جاتی تھی کاروبار میں تبدیل ہو گئی ۔پاکستان میں اشتہارات انٹرٹینمنٹ کی بجائے انفورمیشن کو ملنے لگے ۔میڈیا مالکان مافیاز میں تبدیل ہو گئے، مشرف خود اس کا شکار ہو کر چلتے بنے ،سوشل میڈیا کے آنے سے رہی سہی کثر بھی نکل گئی، پاکستانی میڈیا اب بہت آزاد ہے کوئی قدغن لگے تو کیونکر اور کیسے دنیا بھر میں سوشل میڈیا حکومتیں بنانے اور گرانے میں اہم کردار ادا کرنے لگا ہے، فیس بک دو اعشاریہ پانچ بلین یوزرز کے ساتھ چھ سو بلین ڈالر کی کمپنی بن چکی ہے جس کے اختیارات کی وسعت سے حکومتیں لرزاں ہیں ،وٹس ایپ دو بلین، میسینجر ایک اعشاریہ پانچ بلین، انسٹاگرام ایک بلین اور ٹویٹر کے تین سو ملین یوزرز صرف ایک کلک سے انفورمیشن پھیلانے میں مصروف ہیں، خان نے اپنے امریکہ کے دورے میں امریکی تھنک ٹینک یونائٹیڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ فار پیس میں سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں ذرائع ابلاغ کنٹرول سے باہر ہیں جنہیں ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے ۔مارک زکر برگ کے مطابق دنیا کی حکومتوں کو کہا گیا ہے کہ وہ سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لئے قانون بنائیں جیسے کہ پاکستان میں کروایا جا رہا ہے تو پاکستان جو کہ رپورٹر ود آو¿ٹ بارڈر کی طرف سے جاری کردہ حالیہ رپورٹ کے مطابق آزادی صحافت کے حوالے سے ایک سو اسی ملکوں کی فہرست میں ایک سو بتالیسویں نمبر پر ہے اگر کر سکتا ہے تو دوسری حکومتیں کیوں نہیں، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر شہزادہ ذوالفقار کے مطابق عمران خان کے اس اعلان پر تحفظات ضرور ہیں لیکن وہ بھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ حکومت ایک کمیشن قائم کرے اور پاکستان میں صحافت کے گرتے ہوئے معیار اور صحافیوں کی بے روزگاری بارے حقائق کی چھان بین بھی کرے، عمران خان کے حالیہ بیان کہ جس میں انہوں نے سوشل میڈیا پر پابندیوں کا زکر کیا جس کو فیس بک کے بانی زکر برگ نے بھی دہرایا ، ان کا کہنا ہے کہ حکومتوں کو چاہیے کہ سوشل میڈیا پر نامناسب اور نفرت انگیز مواد کی روک تھام کے بارے میں قوانین لائیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ابلاغ شروع سے لیکراب تک یہ سب حکومت کے کنٹرول میں ہی رہے ہیں اور رہنے بھی چاہئیں یہ حکومت ہی کے اختیار میں ہونا چاہئے کہ حکومت کس حد تک آزادی دیتی ہے جس طرح دوسرے قوانین معاشرے کے بگاڑ کو روکنے کے لیے بنائے جاتے ہیں اور ان پر عمل درآمد بھی کروایا جاتا ہے، فی زمانہ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ پاکستان میں صحافتی ادارے اپنا کوڈ آف کنڈکٹ بنائیں اور حکومت اسکی روشنی میں ایک مضبوط ریگولیٹری اتھارٹی بنائے اور اس کے لیے قانون سازی بھی کرے ، اسی میں ہم سب کی بہتری ہے اگر پیرینٹل کنٹرول چل سکتا ہے تو یہ سب کچھ بھی ہو سکتا ہے ،مادر پدر آزادی نقصان دہ ہوتی ہے اور خاکے اس کا واضع ثبوت ہے۔