نیویارک( ندیم منظور سلہری سے) انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن اور اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغان شہریوں کی زبردستی واپسی کے فیصلے کو معطل کریں اور ملک میں رہائش پذیر افغانوں کی ممکنہ واپسی کو محفوظ، باوقار اور رضاکارانہ طریقے سے یقینی بنائیں۔ افغانستان اس وقت شدید انسانی بحران سے گزر رہا ہے خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے لیے، جن پر طالبان نے چھٹی جماعت سے آگے کی تعلیم، زیادہ تر عوامی مقامات اور بہت سی ملازمتوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ پاکستان سے افغان باشندوں کو زبردستی ملک بدر کرنے سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو سکتی ہیں جن میں خاندانوں کی علیحدگی اور نابالغوں کی ملک بدری شامل ہے۔ رپورٹ میں پاکستان کے کریک ڈاؤن کا حوالہ دیتے ہوئے مذید کہا گیا اس طرح کے اقدامات کے ان تمام لوگوں کے لیے سنگین مضمرات ہوں گے جنہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے اور واپسی پر انہیں تحفظ کے سنگین خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان نے حال ہی میں ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے جن میں 1.7 ملین افغان بھی شامل ہیں انہیں کہا گیا ہے کہ وہ 31 اکتوبر تک اپنے آبائی ممالک کو واپس جائیں تاکہ بڑے پیمانے پر گرفتاری اور بے دخلی سے بچا جا سکے۔ پاکستانی حکومت افغانوں کو نشانہ بنانے کی تردید کرتی ہے اور کہتی ہے کہ توجہ ان لوگوں پر مرکوز ہے جو غیر قانونی طور پر ملک میں ہیں، چاہے ان کی قومیت کچھ بھی ہو۔ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں سرمایہ کاروں اور رئیل اسٹیٹ کے مالکان کو نوٹس موصول ہوئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ وہ ماہ کے آخر تک غیر قانونی رہائش پذیر افغانوں اور ان کے خاندانوں کو بے دخل کریں یا کارروائی کا سامنا کریں۔ پولیس نے شہر کی کچھ مساجد کے علما سے کہا ہے کہ وہ نمازیوں کو ان کے فرض کے بارے میں بتائیں کہ وہ اپنے پڑوس میں رہائش پذیر افغانیوں کے بارے میں اطلاع دیں۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ پاکستانی طالبان ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافے کے درمیان سامنے آیا ہے جنہوں نے ملک کے اندر مضبوط ٹھکانے بنا رکھے ہیں۔ پاکستان طویل عرصے سے افغانستان میں طالبان حکام سے ٹی ٹی پی کی حمایت بند کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن افغان طالبان اس دہشت گروپ کو پناہ گاہیں فراہم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔