مجیب ایس لودھی، نیویارک
ہر ملک میں قانون کے تحفظ میں وکلا برادری کا کردار نمایاں سمجھا جاتا ہے جوکہ عوام کی قانون کی پیچیدہ گزرگاہوں میں سے راستہ تلاش کرنے میں رہنمائی کرتے ہیں لیکن جب یہی وکلا قانون کی عمارت کو ہی گرانے پر لگ جائیں تو حالات یکسر تباہی کی طرف چل پڑتے ہیں ، ایسا ہی کچھ اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی ہوا جہاں چیمبرز گرانے کے خلاف احتجاج کرنے والے مشتعل وکلا نے بات کی شنوائی نہ ہونے پر اچانک اسلام آباد ہائیکورٹ پر دھاوا بول دیا ، مشتعل وکلا نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ ،ہاتھ میں جوآیا عمارت کی طرف دے مارا جس سے اسلام آباد ہائیکورٹ کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے ، دروازوں کو بھی نقصان پہنچا ،یہ سارا منظر ایک بنانا ری پبلکن ریاست کی منظر کشی کر رہا تھا جہاں کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ غصے سے لال ،پیلے وکلااپنے موقف پر ڈٹے ہوئے سب کچھ تباہ کرنے کے درپے تھے ، اس موقع پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ اپنے چیمبر میں محصور ہو کر رہ گئے ،چیمبرز کے اراکین جسٹس کو تحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام اور بے بس نظر آئے ۔وہ وکلا جو کہ عدلیہ کا تحفظ کرتے ہیں اب خود ہی اپنے ادارے کی تذلیل کا سبب بن رہے تھے ۔ساری صورتحال میں چیف جسٹس اطہر من اللہ اپنی جان بچانے میں کامیاب رہے ۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ عدالت پر حملے میں ملوث وکلا کو مثالی سزا ملنی چاہئے،کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس میں انھوں نے کہا آپ سب کو معلوم ہے کہ یہ سب کس نے کیا، اس کے لیے کسی کمیشن کی ضرورت نہیں، جنہوں نے ہائیکورٹ پر حملہ کیا ان کی نشاندہی بار کرے تاکہ کسی بے قصور کو ہراساں نا کیا جا سکے، ہائی کورٹ پر حملہ کرنے والے سارے بار کے وکلا تھے آدھے سے زائد کو میں جانتا ہوں جنہوں نے پانچ گھنٹے ججز کو یرغمال رکھا وہ اس انتہائی گھناو¿نے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں، یہ واقعہ بالکل غلط ہوا ہے اس میں ملوث لوگوں کو مثالی سزا ملنی چاہیے، مجھے کہا گیا تھا کہ کارروائی کے لیے تیار ہیں لیکن میں نے کہا کہ کوئی ایکشن لے کر ہائی کورٹ کو میدان جنگ نہیں بننے دوں گا، میں نے کہا کہ آپ آئیں اور آ کر بے شک مجھے مار دیں مگر ایکشن لے کر اس کو تماشہ نہیں بناو¿ں گا، ایک سو لوگوں کے ایکٹ کی وجہ سے بار کی عزت داو¿ پر ہے، سب لوگ یونیفارم میں تھے بار کی بھی عزت اس میں ہے کہ ان لوگوں کی نشاندہی کریں، گزارش کی تھی کہ ہائی کورٹ اور ڈسٹرکٹ کورٹ کے صدر آئیں ،لیکن وہ نہیں آئے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وکلا کی میڈیا سے بدتمیزی پر بھی اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا والوں کو مارا گیا اور ان کی ویڈیوز بھی ڈیلیٹ کرائی گئیں، یہ رویہ بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا، آپ کو معلوم ہے کہ وہ پلاننگ کے ساتھ آئے تھے اور باہر میڈیا والوں کو مارا اور وڈیوز ڈیلیٹ کی ہیں، عدالت پہلے ہی ہدایات جاری کر چکی ہے کہ صرف ان وکلا کے خلاف کارروائی کریں جو واقعہ میں ملوث ہیں، جن وکلا پر صرف شبہ ہے ان کے خلاف کارروائی سے روک دیا ہے، چیف جسٹس کو پانچ گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا مگر میرا کوئی غصہ نہیں ہے، جے آئی ٹی نے رپورٹ دی ہے کہ وکلا اور بار ان سے تعاون نہیں کر رہے، اس وقت ذمہ داری بارز کی ہے، میں نے اپنی آنکھوں سے بار کے صدر اور آپ سیکرٹری کو بے بس دیکھا، اگر ایسا کسی سیاسی جماعت کے لوگوں نے کیا ہوتا تو ریاست ان کے ساتھ کیا کرتی؟، مجھ کو جب یرغمال رکھا گیا تو میں اس کے لیے بھی تیار بھی تھا کہ زیادہ سے زیادہ کیا کریں گے مار دیں گے۔چیف جسٹس ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے کہا کہ صرف میرا ایشو نہیں، آٹھ دیگر ججز کو بھی محصور رکھا گیا، یہ ادارے کا معاملہ ہے ،کوئی کمپرومائز نہیں ہو گا اگر مگر نہیں چلے گا قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔وکلا کا کام قانون کا تحفظ کرنا ہوتا ہے نہ کہ اس پر حملہ آور ہونا ، حملے میں ملوث تمام ملزمان کو کڑی اور قرار واقعی سزا ملنی چاہئے تاکہ آئندہ کوئی اس طرح کی گھناﺅنی حرکت میں ملوث ہونے کے متعلق سوچ بھی نہ سکے ، قانون کا اس طرح مذاق اُڑانے کی ہرگز اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔
٭٭٭