دنیا کے مہذب ممالک میں دیکھا جائے تو سیاست دان کا نام کے ساتھ ایک معتبر اور دور اندیش قسم کے شخص کا عکس ذہن میں ابھرتا ہے جن ممالک میں جمہوری نظام رائج ہے وہاں کے دیگر تمام ادارے جمہوریت کو مضبوط کرنے اور جمہوریت کو درپیش خطرات سے نمٹنے کیلئے پرعزم نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک مثال دیکھنی ہو تو ماضی قریب میں وہ اس تصویر پر اٹھنے والے شور سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس میں امریکہ کے آرمی چیف سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عقب میں قدرے دور نظر آ رہے تھے، مگر امریکہ میں موجود سیاسی و سماجی حلقوں نے اس بات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکی فوج کے سربراہ کا سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہمراہ ہونا اس بات یا تاثر تقویت دیتا ہے کہ وہ نظام کے ساتھ نہیں بلکہ امریکہ کی طاقتور شخصیت کے ہمراہ ہیں۔ اس تنقید کے بعد سب نے دیکھا کہ امریکی آرمی چیف کی جانب سے باضابطہ نہ صرف معافی مانگی گئی بلکہ آئندہ محتاط رہنے کا وعدہ بھی کیا گیا۔ برطانیہ میں سیاسی جمہوری نظام پر اس قدر مضبوط ہے کہ حکومت کتنے بھی خطرات میں گرجائے، نظام کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا، اگر حکومتی لوگوں سے معاملات حل نہ ہوں تو دوبارہ الیکشن ہی ہوتے ہیں نہ کہ کوئی اور قوت نظام کو سنبھالنے کا خیال کرے۔ اب ایک نظر اگر ترقی پذیر ممالک پر ڈالی جائے تو آپ کو تمام برائیوں کی جڑ ہمیشہ نظام کے ساتھ کیے جانے والے کھلواڑ میں نظر آئے گئی۔ ترقی پذیر ممالک ہمیشہ اسی کنفیوڑن میں رہتے ہیں کہ وہ کس نظام کو لے کر چلیں اور کس کو چھوڑ دیں۔ دیکھا جائے تو یہ کنفیوژن ہے تو اشرفیہ کی مگر اس کا خمیازہ عوام بھگتی ہے۔ پاکستان پر نظر ڈالی جائے تو وہاں پر حالیہ دنوں میں چلنے والی پی ڈی ایم کی تحریک پس پردہ قوتوں کے خلاف ایک بڑی تحریک قرار دی جا رہی تھی۔
مگر اس تحریک کا مستقبل بھی ماضی کی تحریکوں سے مختلف نظر نہیں آتا۔ اس تحریک میں شامل ہوتے ہیں چاہے جتنا مرضی یہ راگ الاپ لیں کہ ان کی تحریک کا مقصد غیر سیاسی قوتوں کی سیاسی عمل میں دخل اندازی کو روکنا ہے، مگر وقت کا چاک ہوتا ہوا پردہ یہ ظاہر کرتا جا رہا ہے کہ اس تحریک کا مقصد بھی شاید انھی قوتوں میں موجود چند افراد کی ایما پر فوجی سیاسی اتحاد پر ضرب لگانا تھا جس میں تاحال تو کامیابی نظر نہیں آرہی۔ پی ڈی ایم کی جانب سے کیے جانے والے دعووں کے برعکس دیکھا جائے تو اب یہ تمام سیاسی جماعتیں ہر وہ کام کر رہی ہیں جس کا انہوں نے نہ کرنے کا اعلان کیا اور خصوصا اسمبلیوں سے استعفوں کے معاملے پر تو پاکستان میں مختلف سیاسی سماجی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی جارہی ہے۔ اس بات کا موازنہ عمران خان کا یو ٹرن سے کرنا اس لئے مناسب نہیں ہوگا، کیونکہ پی ڈی ایم میں موجود تمام سیاسی جماعتیں سیاست کے میدان میں وسیع تجربے کی حامل ہیں۔ غرض پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں اگر سیاست دان کا نام لیا جائے تو فورا آپ کے ذہن میں کرپٹ اور بد دیانت قسم لوگ کے لوگوں کا تاثر ابھرے گا۔ترقی یافتہ اور مہذب ممالک کے سیاستدانوں اور ترقی پذیر ممالک کے سیاستدانوں میں بنیادی فرق ہی یہی ہے کہ وہ کوئی قدم اٹھانے سے پہلے سوچتے ہیں اور ترقی پذیر ممالک کے سیاستدان قدم اٹھانے کے بعد سوچتے ہیں۔
٭٭٭