سیدنا صدیق اکبرؓ کا خطبہ!!!

0
220
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

مفتی عبدالرحمن قمر،نیویارک

جب یہ تحریر آپ کی نظر سے گزر رہی ہوگی، بائیس جمادی الثانی ہوگی یا ایک آدھ دن کا فرق ہوگا۔ آج کی اس تحریر میں آپ صدیق اکبرؓ کے خطبے کی چند باتیں لکھ رہا ہوں تا کہ ہم بھی کچھ سبق حاصل کریں۔ ویسے تو ہم آج کل بے نیاز ہو گئے ہیں ہمیں کسی کی بھی ضرورت نہیں حتیٰ کہ ایک صاحب ٹی وی پر کہہ رہے تھے کہ آج کے دن محمد الرسولﷺ بھی ہمارے لئے کچھ نہیں کر سکتے۔ اپنے اپنے ظرف کی بات ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا اللہ کی بارگاہ میں ایسے بندے کو لایا جائےگا جس پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا تھا اس کے رزق میں وسعت دی تھی ارو اس کے بدن کو تندرستی بھی عطاءکی تھی لیکن وہ ناشکرا تھا۔ اللہ کے سامنے کھڑا کیا جائےگا۔ اس سے پوچھا جگائیگا تو نے اس دن کیلئے کیا عمل کیا ہے۔ اپنے نفع کیلئے کون سے اعمال بھیجے ہیں جب وہ اپنے بھیجے ہوئے اعمال میں کوئی خیر نہ دیکھے گا تو رونا شروع کر دے گا اور اسے عار سے دلائی جائے گی۔ وہ خون کے آنسو روئے گا پھر پکارے گا یا اللہ رحم کر یا اللہ رحم کر پھر سیدنا صدیق اکبرؓ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ۷ قدرت میں میری جان ہے اگر تم لوگ پرہیز گاری کرو، اور پاک دامنی برتو تو بہت قریب ہے کہ تم پر معمولی زمانہ نہ گزرے یہاں تک کہ تمہارا پیٹ روٹی اور گھی سے بھر جائےگا۔
پھر فرمایا۔ اے جماعت مسلمین اللہ رب العزت سے حیاءکرو، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں جب رفع حاجت کیلئے جنگل جاتا ہوں اللہ تعالیٰ سے حیاءاور شرم کی وجہ سے کپڑا منہ پر ڈال لیتا ہوں، صحابہ کرامؓ فرماتے ہیں جب آپ خطبے کیلئے کھڑے ہوئے تو روئے اور کہا جب سرکار دو عالمﷺ بھی پہلے سال منبر پر کھڑے ہوئے تھے روئے تھے پھر آپ نے فرمایا اللہ پاک سے معافی اور عافیت کا سوال کرو۔ اس لئے کہ تم میں سے کسی کو ایمان کے بعد عافیت سے بھلی چیز نہیں دی گئی۔ پھر فرمایا۔ سچ بولنے کو لازم پکڑ لو، اس لئے کہ سچ بھلائی ہے۔ اپنے آپ کو جھوٹ سے بچاﺅ، کیونکہ جھوٹ فجور کےساتھ ہے ایک دوسرے سے حسد نہ کرو۔ بغض نہ رکھو۔ قطع تعلق نہ کرو۔ ایک دوسرے کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو۔ تم اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن جاﺅ جیسا کہ حکم ربی ہے پھر فرمایا اللہ کی پناہ چاہو۔ نفاق کیا ہے، فرمایا بدن تو خشوع وخضوع ظاہر کر رہا ہون، لیکن اندر کچھ اور چل رہا ہو یہ نفاق ہے جو باہر ہو اند ربھی وہی ہو پوری محنت کرو۔ اعتدال کےساتھ لو، کیونکہ اعتدال سے چلنا انسان کو منزل مقصود تک جلد پہنچا دیتا ہے اور سنو جس کے پاس دین نہیں اس کے ایمان نہیں۔ جس کے پاس ایمان نہیں وہ وعدوں کا پابند نہیں وعدے کی پاسداری کرو، اور ثواب کی نیت سے عمل کرو۔ جس کی نیت ثواب کی نہیں اس کیلئے اجر نہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here