بلوچستان میں امن و ترقی!!!

0
135

قومی ترقیاتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے بلوچستان کے احساس محرومی کو دور کرنے کی بات کی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ گوادر بندرگاہ کا منصوبہ کھیل کا پانسہ پلٹنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں قیام امن اور ترقی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بلوچستان کو مالی وسائل فراہم کئے گئے لیکن عوام کی فلاح و بہبود کو یکسر نظر انداز کرنے کی وجہ سے یہ فنڈز مفید ثابت نہ ہو سکے اور صوبے کا بڑا حصہ پسماندگی کا شکار ہو گیا۔ بلوچستان وہ بدقسمت صوبہ ہے جو ہمیشہ اپنے ہی لوگوں کے باعث محرومیوں کا شکار رہا۔رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا اور آبادی کے اعتبار سے سب سے چھوٹا صوبہ جمہوری آزادیوں اور معاشی مواقع کے عہد میں بھی سرداری نظام کی بوسیدہ زنجیروں کا اسیر ہے۔ علاج معالجے کا کوئی قابل اعتماد نظام نہیں ‘عام لوگ بنا علاج کے مر جاتے ہیں‘ جن کے پاس وسائل ہیں وہ کراچی یا اسلام آباد کے جدید ہسپتالوں سے علاج کراتے ہیں۔ یہ حقیقت سامنے آ چکی ہے کہ معدنی وسائل سے مالا مال بلوچستان میں سرداروں نے ریاست کو عام بلوچ عوام سے دور کئے رکھا۔ ایسے مسلح گروہ بنائے جو سندھ‘ پنجاب اور کے پی کے سے بلوچستان میں آکر بطور استاد‘ڈاکٹر اور انجینئر کام کر نے والوںکو قتل کیا یا بلوچستان سے نکل جانے پر مجبور کر دیا۔ بلوچ سردار عام شہریوں کو اپنا محکوم رکھتے ہیں۔ بچوں کو تعلیم دلانے کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں ‘یوں ترقی اور شعوری سطح پر آگے بڑھنے کے لئے انسان کو تعلیم‘ سماج اور بنیادی آزادیوں سے جو مدد ملتی ہے بلوچ عوام اس سے محروم رہے ہیں۔ کسی علاقے کی معاشی و سماجی ترقی کا عمل شروع کرنے سے قبل وہاں موجود مسائل کی نشاندہی ضروری ہے۔ یہ درست ہے کہ قبائلی اضلاع کے بعد بلوچستان کے اکثر علاقے غربت کی بدترین حالت میں ہیں۔ صوبے میں منصوبہ بندی اور مالیات کا نظام برق رفتار اصلاحات کا تقاضا کرتا ہے۔ بلوچستان کی معاشی و سماجی ترقی کے اشاریے مایوس کن ہیں صوبائی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے لئے مختص رقوم بہت ہی ناکافی رہی ہیں۔ صوبے میں تعلیم کا فروغ ایک بنیادی چیلنج رہا ہے‘ افسوسناک سچائی یہ ہے کہ ہر سال بجٹ میں صوبائی حکومت اس مد میں فنڈز کا حجم کم کرتی رہی ہے۔ بلوچستان میں سرداری نظام اور غربت نے کچھ علاقوں میں عسکریت پسندی کو بڑھاوا دیا ہے ایسے چند گروپوں کی وجہ سے امن و امان کی مجموعی صورت حال متاثر ہوتی ہے اور صوبے میں بیرونی سرمایہ کاری کا عمل خطرات کا شکار ہونے لگتا ہے۔ صوبے میں بدعنوانی اور سیاسی عدم استحکام ترقی کے عمل میں بڑی رکاوٹ ہیں۔حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ جن شخصیات کو بدعنوانی کے الزام پر اہم عہدوں سے ہٹایا جاتا ہے چند سال بعد وہی لوگ دوبارہ اعلیٰ مناصب پر فائز ہو جاتے ہیں۔ لگ بھگ ہر حکومت نے بلوچستان کو پسماندگی سے نجات دلانے کی کوشش کی۔ بے نظیر بھٹو نے دوسرے دور حکومت میں آغاز حقوق بلوچستان کا تصور دیا جو ان کی وفات کے بعد بننے والی پی پی حکومت نے نافذ کیا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے سی پیک منصوبے میں بلوچستان کی تعمیر و ترقی کو اہمیت دی۔ گوادر کی بندرگاہ کو ملک کی بڑی شاہراہوں کے ساتھ ملانے کا کام شروع کیا۔ یہ سب منصوبے اپنی جگہ اہم ہیں۔ بلوچستان میں امن ‘روزگار‘تعلیم‘ صحت اور سیاسی استحکام کے لئے تحریک انصاف کی حکومت نے مسلسل کوشش کی ہے۔ پی ٹی آئی نے بلوچستان میں نئے اور با صلاحیت افراد کو آگے آنے میں مدد دی۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اور وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کو وفاقی حکومت نے ہر موقع پر مدد دی کہ وہ صوبے کی بھر پور نماندگی کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچ عوام کی ترقی و خوشحالی کے لئے عوام دوست نظام کو مضبوط بنا سکیں۔ گوادر بندرگاہ پر مال بردار جہازوں کی آمدورفت کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ گزشتہ چند روز سے ذرائع ابلاغ میں گوادر کی ساحلی پٹی پر بنی خوبصورت سڑک‘ دیدہ زیب پارک اور سیاحتی سہولیات کی تصاویر گردش کر رہی ہیں۔ وہ صوبہ جس کے متعلق غلط طور پر یہ سمجھا جا رہا تھا کہ وہ وہاں حالات کنٹرول میں نہیں اس صوبے میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔گوادر کی بندرگاہ نے ایک طرف پاکستان اور چین کی سٹریٹجک شراکت داری کو مضبوط کیا ہے تو دوسری طرف پاکستان کو تنہائی سے نکال کر ایک بار پھر بین الاقوامی برادری کے معاشی و تجارتی مفادات کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔بلوچ عوام کی پسماندگی اور محرومیوں کو جواز بنا کر بھارت نے صوبے میں تخریبی سرگرمیاں شروع کر رکھی تھیں’ مسلح افواج کی جدوجہد سے ان سرگرمیوں میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ مقامی بلوچوں کو گوادر اور سی پیک کے دیگر منصوبوں میں روزگار فراہم کیا جا رہا ہے‘ تربت میں 200بیڈ پر مشتمل ہسپتال کی تعمیر اور تفتان میں کمیونٹی سنٹر کے قیام کی خاطر چند ہفتے قبل وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے وزیر اعلیٰ جام کمال کو ایک ارب روپے کا چیک پیش کیا۔بلوچستان کے وہ علاقے جو بدامنی کا شکار ہیں وہاں سکیورٹی فورسز کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا خوش آئند ہے کہ بلوچستان کے احساس محرومی کو دور کیا جائے گا۔بلوچستان میں سیاسی استحکام اور بدعنوانی سے پاک نظام یقینی بنا کر یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں بلوچستان میں معدنیات کی دریافت کے لئے سرکاری سطح پر ایک کمپنی بنانے کی منظوری اسی خوشحالی کی طرف ایک قدم ہے جو بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے موثر کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here