مجیب ایس لودھی، نیویارک
آخر کار امریکہ میں انتخابات انجام کو پہنچ گئے اور دنیا بھر میں ہل چل ، چہ مگوئیوں کا طویل سلسلہ بھی ختم ہوگیا اور ری پبلکن کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ خود ہی ڈیموکریٹس کے صدر جوبائیڈن سے ہار گئے ،جی ہاں !بالکل درست لکھا میں نے موجودہ انتخابات میں جوبائیڈن نے ایسا کوئی کمال نہیں کیا کہ وہ کامیابی حاصل کرتے، اصل میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اپنے منفی رویہ ، کمیونٹیز پر غیر ضروری تنقید ، سفید فام افراد کی حد سے بڑھ کر حمایت نے آج ان کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے ،ڈونلڈ ٹرمپ کے روز اول سے ہی مسلمانوں کے خلاف اقدامات کی وجہ سے تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلم کمیونٹی نے دل کھول کر بائیڈن کو ووٹ دیئے ، پاکستان نیوز نے انتخابات سے ایک ہفتے قبل ایک سروے رپورٹ جاری کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ اس مرتبہ 70فیصد مسلم امریکی ووٹ بائیڈن کو دیں گے جوکہ بعد میں بالکل درست ثابت ہوئی، موجودہ انتخابات میں 70فیصد مسلم ووٹرز نے بائیڈن کو کامیاب کرایا ہے ۔ ٹرمپ کی شکست میں ایک وجہ ان کا اپنے ہی سیکیورٹی اداروں سے غیر مناسب اور سخت رویہ بھی تھا ، اقتدار میں آتے ہی انھوں نے ایف بی آئی سمیت دیگر حساس اداروں سے اہم عہدوں سے لوگوں کو ہٹایا اور ان کی قابلیت پر بھی سوالات اٹھائے ، بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ ٹرمپ نے میڈیا کو بھی آڑھے ہاتھوں لیا ، امریکہ کے میڈیا کو دنیا بھر میں معتبر اور مستند رپورٹنگ کا حامل قرار دیا جاتا تھا لیکن ٹرمپ واحد امریکہ کے صدر تھے جنھوں نے دنیا بھر میں اپنے میڈیا کو جھوٹ کی مشینیں ثابت کیا خاص طو رپر نیویارک ٹائمز کو جھوٹی خبروں کا مرکز قرار دیا ۔انتخابات سے ایک ہفتہ قبل ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ دوبارہ انتخابات جیتنے پر ایف بی آئی کے ڈائریکٹر سمیت اہم عہدیداروں کو عہدوں سے ہٹا دیں گے ، یہ سب عوامل خود بخود ٹرمپ کے خلاف ہو گئے تھے ، امریکہ میں رہائش پذیر کمیونٹیز نے اس مرتبہ بڑی تعداد میں ٹرمپ کے خلاف ووٹ کاسٹ کیے،اس سب کے باجوود ٹرمپ نے بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کیے ہیں لیکن الیکٹورل ووٹس میں جوبائیڈن نے کامیابی سمیٹی ہے ،خاتون نائب صدر کا انتخاب بھی امریکی سیاست کی تاریخ میں اہم قدم ثابت ہوا ہے کیونکہ اس سے قبل کبھی بھی امریکہ میں خاتون صدر نہیں آئی ہیں ، کامیلا ہیرس ایک سیاہ فام اور بھارتی نژاد کہلاتی ہیں کیونکہ ان کی والدہ بھی بھارت کی رہنے والی تھیں ، جوبائیڈن کا ایک خاتون کو نائب صدر کے لیے نامزد کرنا بھی بہت بہادری کا فیصلہ تھا کیونکہ امریکی سیاست میں خاتون کو صدر یا نائب صدر کے عہدے کے لیے کبھی بھی نہیں سراہا گیا ہے ۔
ٹرمپ نے ایران کے معاملے پر دنیا میں سب سے بہترین اور اعلیٰ سمجھے جانے والے سی آئی اے کے ادارے کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ سی آئی اے ایران کے معاملے میں بہت سادہ ہے ، میں جانتا ہوں کہ ایران پس پردہ کیا کر رہا ہے ؟اس قسم کے بیانات سے ٹرمپ سمیت امریکی اداروں کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوئی ،ٹرمپ نے شمالی کوریا کے معاملے میں بھی اپنی ہی پالیسی پر عمل کیا حالانکہ اس حوالے سے ان کو پینٹا گون کی ہدایات کی ضرورت تھی جس پر بالکل بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا ۔رواں انتخابات کے دوران ایک اور دلچسپ واقعہ پنسلووینیا میں پیش آیا جس کے دوران21ہزار سے زائد مردہ ووٹروں نے بھی حق رائے دہی کا اظہار کر دیا،میل کے ذریعے کاسٹ کیے گئے21ہزار سے زائد ووٹوں کو مسترد کر دیا گیا ہے ۔یہ کہنابالکل مناسب ہوگا کہ ٹرمپ ایک ون مین آرمی کی طرح اپنی حکومت کو چلا رہے تھے جو ان کا حمایتی تھا وہ ان کے لیے عزیز اور سو فیصد درست تھا جبکہ جو بھی ان کے خلاف جاتا وہ اس کو جھوٹا قرار دیتے اور اس کی مخالفت کرتے ،خاص طور پر صحافیوں کی جانب سے پریس کانفرنس کے دوران کسی بھی کڑوے یا سخت سوال پر وہ براہ راست سخت جملوں کا استعمال کرتے تھے اوردنیا میں سب سے معتبر سمجھے جانے والے نیویارک ٹائمز کو فیک نیوز کہہ کر پکارتے تھے ، ٹرمپ اپنی جماعت اور حکومت کے عہدیداران سے بھی خوش نہیں تھے اور اکثر ملکی معاملات میں وہ اپنے ساتھیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے نظر آتے تھے ، ٹرمپ کی موجودگی خود امریکہ اور دنیا بھر کے لیے ایک ہنگامہ خیز لمحے سے مامور ہوتی تھی ،اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ میں ایک ہیجان آمیز قیادت کے خاتمے کے موقع پر دنیا بھر کی حکومتوں اور خاص طور پر ایران اور چین نے سکھ کا سانس لیا ہو گاجوکہ آئے روز ٹرمپ انتظامیہ کے زیر عتاب رہتے تھے ، آیا کہ ابھی بھی ٹرمپ حکومت کے 70روز باقی ہیں مگر ٹرمپ اپنی شکست کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور قانونی جنگ کا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔
٭٭٭