2نومبر2020کی شب جب جوبائیڈن کی جیت کے امکانات روشن ہوگئے تھے اور اچانک ٹرمپ اوپر جاکر نیچے گر رہے تھے تیزی کے ساتھ تو سب کو ہی حیرانی تھی کہ یہ کیسے ممکن ہے؟لیکن سیاسی تبصرہ نگاروں نے لمحہ بہ لمحہ تجزیہ سے بتانا تھا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے اسی رات جو بائیڈن نے پوڈیم پر آکر کہا”یہ میرا اور ٹرمپ کا اختیار نہیں کہ وہ اعلان کریں“ کون جیتا یہ امریکی عوام کا فیصلہ ہے۔
اسی رات ٹرمپ صاحب نے بیان دیا”ہم سپریم کورٹ میں رجوع کرینگے“انہیں اور انکے چاہنے والوں کو یہ امید نہ تھی کہ تیزی سے بساط الٹ دی جائے گی اور جن پانچ ریاستوں میں وہ جیت کے قریب پہنچ کر لوٹا دیئے جائینگے۔ایری زونا، جارجیا، نوادا، نارتھ کیرولینا اور پنسلوانیا کے علاوہ مشی گن بھی تھی۔مشی گن کو چھوڑ کر الیکٹوریل ووٹ جو پاپولر(عوامی)ووٹوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں کی کل تعداد68تھی،اس وقت جو بائیڈن کے پاس279اور ٹرمپ کے پاس214ووٹ تھے اگر یہ68ووٹ ٹرمپ کو مل جاتے تو تعداد282ہوجاتی اور بائیڈن کے پاس211ووٹ ہوتے لیکن گنتی جاری تھی اور پھر بائیڈن جیت گئے۔
ہر چند کہ ٹرمپ قانونی چارہ جوئی کا سوچ رہے ہیں لیکن ایسا کرنے سے انہیں کچھ حاصل نہ ہوگا وہ کیوں ہارے اس کی کئی وجوہات ہیں کہ امریکی عوام بالخصوص افریقن امریکن اور ہسپانوی عوام کو دینے کے لئے کچھ نہ تھا وہ الیکشن سے پہلے بے جان تقریریں کر رہے تھے جو عوام کو پسند نہ تھیں انہوں نے بڑی تعداد میں ووٹرز کو ناراض کیا تھا یہ کہہ کر کہ امریکہ کو عظیم بنانا ہے۔میکسیکن جرائم کرتے ہیں اور قانون کی پاسداری نہیں کرتے حالیہ احتجاج پر جومیناپولس میں ایک افریقن امریکن کے ساتھ ہوا اور نتیجہ میں وہ پولیس کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا24سالہ جارج فلائیڈ کے حق میں احتجاج شروع ہوگیا جس نے پورے امریکہ کو لپیٹ میں لے لیا۔بالخصوص ڈیموکریٹک شہروں اور ریاستوں میں اس احتجاج میں کچھ لوگوں نے لوٹ مار اور توڑ پھوڑ بھی جی جس پر ٹرمپ نے انہیں برا بھلا کہا ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ پولیس آفیسر کی اس انسانیت سوز حرکت پر افسوس کا اظہار کرتے اور وہاں جاکر صبر کی تلقین کرتے اور انصاف دلانے کا وعدہ کرتے انہوں نے آگ کو اپنے الفاظوں سے بھڑکایا گورے امریکن کے علاوہ دوسرے امریکن پر یہ واضح ہوگیا کہ وہ صرف گورے امریکن کے حق میں ہیں اور ان سے نفرت کی اس دوڑ میں سب ہی کودورے پڑے بالخصوص جو امیگریشن پالیسی کی زد میں تھے، جیسےDACAپروگرام کہتے ہیں جس کے تحت بہت سے ہسپانوی بولنے والے عوام کو ان کے بچوں سے جو غیر قانونی طور پر بارڈر کراس کرکے امریکہ آگئے تھے۔جدا کردیا،ایسا کچھ اوبامہ کے دورمیں ہوا تھا کہ انہیں ملک بدر کر دیا گیا تھا لیکن اوبامہ نے جو کچھ کیا وہ امیگریشن پالیسی کی زد میں آیا اور ٹرمپ نے اسے مسئلہ بنا کر پیش کیا ،گورے امریکن کو خوش کرنے کے لئے اور یہ بات انکے گلے پڑ گئی دیکھا جائے تو ہر ملک کے امیگریشن اصول یا قانون ہوتے ہیں کہ آپ غیر قانونی طور سے قیام نہیں کرسکتے لیکن امریکہ میں لوگ بیس بیس سال سے غیر قانونی رہتے آتے ہیںاور جب پکڑے جاتے ہیں تو ناراض ہوتے ہیں اور ان سے جڑے انکے عزیز اقارب جو قانونی طور سے شہری ہیں حمایت میں ٹرمپ کے خلاف ہوکر بائیڈن کو چنتے ہیں۔
تیسری دنیا سے آکر یہاں بسنے والوں کو یہ فوبیا ہوگیا کہ ٹرمپ نے تعصب کی آگ لگائی ہے اور گورے امریکن انہیں یہاں رہنے نہیں دینگے۔یہ سب اس لئے ہوا کہ ٹرمپ نے اپنی تقاریر میں کچھ اس انداز سے اظہار کیا کہ لوگوں کو اندیشہ ہوا کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوگی اور تعصب بڑھ جائے گا۔حالانکہ حقیقت سے سوچا جائے تو ہمارے اپنے ملکوں میں جہاں سے ہم آئے ہیں تعصب ایک وبا کی شکل اختیار کر گئی ہے وہاں کسی کو قابلیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ تعلقات عصبیت کی بنیاد پر نوازہ جاتا ہے اور میرٹ کا قتل کیا جاتا ہے۔
یہ کہنے میں ہمیں کوئی جھجک نہیں کہ بغیر رنگ، مذہب، نسل کے صرف اور صرف قابلیت کی بنیاد پر ملازمت ترقی اور مواقع حاصل ہوتے ہیں۔بڑی بڑی کمپنیوں،اداروں، سرکاری دفاتر میں اقلیتوں کے لوگ بڑے بڑے عہدوںپرفائزہیں۔اسکی سب سے بڑی مثال ہندوستانی نژاد کے مسٹر پچھائی گوگل کےCEOہیں۔تنخواہ اور دوسری مراعات25ملین ڈالرز ملتے ہیں جو گورے امریکن کو نہیں ملتے اور تازہ ثبوت یہ ہے کہ کمالہ(کملا)حارث امریکہ کی نائب صدر ہیں۔انہیں ووٹ دینے والوں میں گورے امریکن بھی شامل ہیں۔
لیکن ٹرمپ نے غلط سوچ دیLET,S MAKE AMERICA GREAT AGAINاور اس دفعہ بھی یہ ہی کہتے رہے جب کہ امریکہ بڑا ہمیشہ سے ہے نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے ڈپلومیسی کے میدان میں خاطر خواہ برُا نام حاصل کیا یہ درست ہے کہ وہ کھلی کتاب کی طرح ہیں ایسی کھلی کتاب جس میں مخالفین کے لئے حقیقت تو ہے اور سچ بھی جو کڑواہٹ پیدا کردیتا ہے۔انہوں نے اپنے رویئے سے سب ہی کو ناراض کردیا ہر چند کہ ان کی باتیں درست تھیں لیکن کہنے کا اندازہ غلط تھا انہوں نے پروٹوکول کا بھی لحاظ نہیں کیا ہر چند کے انکے کارناموں میں جنگیں بند کرنا شامل رہا ہے لیکن اپنے داماد اور بچوں کو نواز شریف والی مراعات دیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ انکا داماد کشنرجونتھن یاہو کا چہیتا ہے بیرونی پالیسی کا ماہر بنا دیا گیا اور انکا سینئر مشیر جس سے انہوں نے خود کو نقصان پہنچایا۔لاقانونیت کے بالکل خلاف ہیں اور ایک اچھا تعلیم یافتہ شہری چاہے گا کہ امن ہو اور قانون کی بالادستی ہو اور یہ ہی ٹرمپ کا کہنا تھا لیکن انہوں نے اپنی بائیڈن کے خلاف تقریرو کو جیتنے کا نسخہ سمجھا اور تقریباً اکثریت کو دشمن بنا لیا اسی اکثریت نے ان سے اپنا حساب برابر کردیا بغض دفعہ ایسا ہی ہوتا ہے یہ سب جانتے ہیں یہ الیکشن کسی مسئلے پر نہیں تھے بائیڈن سے انکے چاہنے والوں کو امیدیں ہیں لیکن وہ صرف امیگریشن کی مد میں اوبامہ والی پالیسی پر عمل کرینگے لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ کسی نالائق اور مجرم کو سہولتیں دلوائیں یہ کام قانون کا ہے، اسی لئے امریکہ عظیم ہے۔
٭٭٭٭