ہم خوش تھے کہ ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر بنیں گے تو کچھ امن آئیگا، جنگیں بند ہونگی اور بائیڈین کی تسلیوں سے کارپوریشنز کو جو لوٹ مار کی آزادی ملی ہے بند ہوگی اور یہ سوچ کر ہم نے تیسری بار صدر ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا لیکن میر تقی میر کا یہ شعر گونج رہا ہے۔
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دوسرا شعر آج کے حالات پر لگا نہیں کھاتا کہ یہ بیماری دل کی بات نہیں۔ یہاں مسئلہ صدر ٹرمپ کے آنے کے بعد بہت کم وقت میں امریکن(مڈل کلاس) پر جو تھپیڑے لگ رہے ہیں وہ ناقابل برداشت ہیں جو کام انہیں کرنے چاہئے تھے اور جو اہم تھے، مہنگائی کو ختم کرنے کا کوئی ذکر نہیں اور اب صرف اور صرف صدر صاحب کی جانب سے دنیا بھر کے ملکوں پر ٹیرف محصول لگایا جارہا ہے۔ یہ مشورہ صدر محترم کو کس نے دیا ہے لگتا ہے، پاکستان کے کچھ نااہل وائٹ ہائوس میں گھس گئے ہیں لیکن وہاں آخری خبریں آنے تک ہندوستانی گھسے ہوئے تھے مگر ایسا مشورہ تو وہ دے نہیں سکتے کیونکہ پاکستان کے خلاف کوئی محاذ نہیں ہے البتہ وہاں سے آنے والی اشیاء پر58فیصد محصول لگا دیا ہے جس پر یقین نہیں آتا پہلے ہی کووڈ19کے بعد لوٹ مار بغیر کسی اعلان کے شروع ہوچکی تھی، صدر بائیڈن کے زمانے میں کوئی پکڑ دھکڑ نہیں تھی اور اب اعلانیہ ٹیرف کے ذریعے مہنگائی بڑھے گی اور بہت بڑھے گی۔ سب سے پہلے کاروں پر یعنی باہر سے آنے والی کاروں پر25فیصد محصول وصول کیا جائیگا اور جو کار آج جاپان ، کوریا سے آرہی ہے۔ اس کی قیمت30ہزار ڈالر سے بڑھا کر ساڑھے سینتیں37.5ہزار ہوجائیگی اگر آپ کیش سے لیتے ہیں اگر بنک سے قرض لیتے ہیں تو5سے چھ فیصد اور بڑھا دیں پھر کاروں کے ڈیلر منافع خوری میں شریک ہو کر اپنا حصہ ڈالیں گے جو وہ پچھلے دو سال سے کر رہے ہیں کبھیCHipsکے نہ ہونے کے بہانے اور کبھی پیچ پرزے مہنگے ہونے کے بہانے۔ یہ سب کچھ ہوگا دیکھتے رہیں ساتھ امریکہ میں بننے والی کاروں کی قیمت میں بھی اضافہ ہوگا اگر امریکن، امریکہ کی بنی کار لینے کی سوچیں گے۔ خیال رہے امریکہ میں سب سے زیادہ کاریں بکتی ہیں، شوق اور پیسے کی زیادتی سے پھر مقابلہ بھی ہوگا حسب معمول تیسری دنیا کے لوگوں میں ایک طوفان بدتمیزی کھڑا ہوجائیگا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو معلوم تو ہے کہ وہ نیویارک میں رہ چکے ہیں اور آٹے دال کا بھائو معلوم ہے وہ کہتے یہ ہی رہے ہیں کہ برسوں امریکی شہریوں کو سائڈ لائن رکھا گیا ہے اور دوسری قومیں طاقتور بن گئیں۔ کیا ایسا ہے ہرگز نہیں البتہ اب کمزور بن جائینگی۔ ایک دم غلط پالیسی کی وجہ سے اور یہ جو اضافی رقم ملے گی وہ امریکی عوام پر نہیں بلکہ ہمیشہ جنگی ہتھیاروں پر خرچ ہوگی۔ اور سب سے بڑا حصہ اسرائیل کو ملے گا اس لئے مہنگائی ہوگئی ہے اور اسرائیل کو مزید ڈالرز اور ڈالرز کی ضرورت ہے ہمارے یہ لکھنے کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ ہم اسرائیل کے خلاف ہیں لیکن برداشت نہیں کہ گھر میں بھوکے ہوں اور باہر والوں کی دعوت کی جائے۔ دوسرا بھکاری ملک یوکرین ہے جہاں کا ایک ناسمجھ صدر زیلنسکی صدر ٹرمپ سے منہ ماری کرکے جاچکا ہے عوام بے خبر ہیں کہ اس کے ساتھ کیا معاہدہ ہوا ہے لیکن چونکہ یہ امریکی بیرونی سیاست ہے لہذا کچھ نہیں کہہ سکتے اتنا ضرور ہے کہ تبرف سے وصول ہونے والی رقم میں یوکرین کا بھی حصہ ہے۔ یہ جاننا مشکل ہے کہ صدر ٹرمپ کے مشیر انہیں کیا مشورہ دیتے ہیں لیکن جو بھی دیتے ہیں وہ سمجھ سے باہر ہے کہ اس میں امریکی شہری کے لئے کیا ہے۔ یہ جواز ہرگز نہیں کہ دنیا بھر کے ملکوں پر ضرورت سے زیادہ محصول لگایا جائے کہ جو امریکی شہری کی جیب سے نکلے کسی بھی اشیاء کو خریدتے وقت۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو جاننا چاہئے کہ یہاں کی کارپوریشنز دنیا کی سب سے زیادہ لالچی کارپوریشنز ہیں۔ اور یقیناً حکومت کی ان میں دلچسپی ہے اور انہیں کنٹرول نہیں کر پا رہی۔ سب سے خراب اور خطرناک ہیلتھ سسٹم ہے کہ جس کے سیکرٹری یا وزیر صحت رابرٹ ایف کینڈی جونیر ہیں وہ کام کر رہے ہیں ایک سال بعد پتہ چلے گا امید کم ہے اچھائی کی ہمیں اس کے لئے ماہر معیشت یا صحت اور ہسپتال یا انشورنس سے جڑنے کی ضرورت نہیں پچھلی کئی دہائیوں سے جو طوفان بدتمیزی اٹھایا ہوا ہے صرف چار فارماسیٹیکل کمپنیوں کا منافع امریکہ کی ساری پیٹرول کمپنیوں سے کہیں زیادہ ہے ایک عام مریض یا میڈیکیڈ کے مریض کو اس کا اندازہ نہیں کہ ہیلتھ انشورنس کمپنیاں کیسے بزنس کر رہی ہیں کہ ہسپتال والوں کے آسمان کو چھوتے بلوں کی ادائیگی اور آسمان سے چھوتے بلوں کو وہ کیسے ادا کر پاتی ہیں ایک جائزے کے بعد ہمیں تو ان سے ہمدردی ہوجاتی ہے اب ایک بار ہسپتال جائیں تو دوسرے امراض کا بھی پتہ لگا لیتے ہیں ڈاکٹر حضرات پھر طرح طرح دوائیں لکھتے ہیں جن کا ردعمل ہوتا ہے اور اُسے ختم کرنے کے لئے دوسری دوا تجویز کی جاتی ہے۔ یہ سب باتیں صدر ٹرمپ کو معلوم ہیں لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ ہر ایکشن کاری ایکشن ہوتا۔ آپ کناڈا پر ٹیرف لگائیں جن سے پچھلے دو سو سال سے لین دین ہے پہلے ہی کناڈا مہنگائی کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔ وہاں منوں اور ٹنوں کے حساب سے پیٹرول نکلتا ہے آبادی کم ہے لیکن پیٹرول مہنگا۔ دوسرے وہاں سے بار دانہ(لکڑی) آتی ہے جسے سکھ فیملی کنٹرول کرتی ہے جو مکان بنانے کے کام آتی ہے لہذا اس کا اثر مکانوں کی قیمتوں پر بھی پڑے گا اور انکی قیمتیں بڑھینگی کھانے پینے کی اشیاء بھی جو انڈیا کی ہیں کناڈا سے آتی ہیں وہ مہنگائی بھی امریکیوں کو برداشت کرنی پڑیگی۔ ہم نے مختصر جائزہ پیش کیا ہے اور اگر کوئی ریپبلکن کہنا ہے ہم غلط ہیں تو ہم یہ بھی کہینگے JUST SHUT UPکہ لگتا ہے ان سب سے شہباز شریف کا دماغ ہے جو پچھلے ہفتہ کہہ چکا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح پچھلے ساٹھ سال سے کم ہے۔ یہ شخص اول درجے کا الّو کاہے یہ جگہ خود پُر کرلیں یا عاصم منیر جنہیں حافظ قرآن ہوتے ہوئے گالیاں بکنا آتا ہے ملک کو برباد کر چکے ہیں انہیں کچھ کہنا یا ان پر لکھنا سب بیکار ہیں۔ کیا ہم سمجھ لیں کہ پاکستان کے بعد امریکہ میں بھی فسطائیت ہو رہی ہے کہ حکومت کو معلوم ہی نہیں اور گھر جل رہا ہے۔ نیرو ایک ہی تھا لیکن اب ہر جگہ نظر آتا ہے سب سے اہم چیز گوشت ہے باوجود اس کے کہ آسٹریلیا سے دوبلین ڈالر سال کا گوشت آتا ہے جو سستا ملتا ہے لیکن پاکستانی دوکانوں پر چکن، مٹن اور گائے کے گوشت کی قیمتیں بڑھتی چلی جارہی ہیں یہ بزنس بھی پاکستانیوں کے ہاتھوں میں ہے۔ امریکہRECESSION(کساد بازاری) کا شکار ہوچکا ہے حکومت کو جاننا چاہئے اور یہ لمبے عرصہ کے لئے ہے اگر صدر ٹرمپ صرف لکچر دیتے رہے صبح شام اور ایلن مسک ایسے لوگوں سے مدد لیتے رہے عمل چاہیئے کہ کچھ کیا ہے۔
٭٭٭٭٭