مفتی عبدالرحمن قمر
کئی عنوان دماغ میں آئے مگر دل نہیں مانا اس لئے آپؓ کا اسم گرامی لکھا۔ تاکہ بار بار ہماری آنکھوں کے سامنے جتنی بار محبت کی نگاہ سے دیکھیں گے سرکار دو عالمﷺ خوش ہونگے چونکہ جو محبت اور پیار سرکار دو عالمﷺ نے صدیق اکبرؓ کو دیا ہے وہ ہمارے نصیب میں کہاں؟ صرف کوشش ہے اللہ قبول فرمائے نام تو عبداﷲ تھا کنیت ابوبکر تھی، اور لقب آپ کے صدیق و عتیق تھے۔ عتیق کا لقب اسلام میں سب سے پہلے آپؓ ہی کو عطاءہوا۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں میں گھر میں تھی باہر صحن میں سرکار دو عالمﷺ صحابہ کےساتھ تشریف فرما تھے اچانک میرے والد داخل ہوئے، سرکار دو عالمﷺ نے ان کی طرف دیکھ کر فرمایا جو شخص دوزخ سے آزاد شخص دیکھنا چاہے وہ صدیق اکبر کو دیکھ لے، عتیق من النار فرمایا اور صدیق کا لقب معراج کے واقعے کے بعد نصیب ہوا۔ سرکار دو عالمﷺ نے فرمایا اے ابوبکر بے شک اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے آپ کا نام صدیق رکھا ہے جب آپ نے معراج کی تصدیق کی توکئی لوگوں کے منہ بد ذائقہ ہو گئے۔ اسلام لانے والوں میں یعنی بالغ لوگوں میں سب سے پہلے ایمان لائے ،بچوں میں سید علی ابن ابی طالب اور خواتین میں سیدہ خدیجة الکبریٰ پہلے ایمان لائیں۔ ایمان لانے کے اسباب تو پہلے ہی سے بن چکے تھے ۔شام کی طرف تجارت پر بحیرہ راہب سے ملاقات ہو چکی تھی سیدنا صدیق اکبر سرکار دو عالمﷺ کی نبوت کے بارے میں سن چکے تھے اور سرکارﷺ کی عظمت دل میں گہری ہو چکی تھی۔ جیسے ہی سرکار دو عالمﷺ نے اعلان نبوت فرمایا، آپؓ فوراً مسلمان ہو گئے۔ یاد رہے بعض لوگوں کو یہاں دھوکہ ہوا جو کہتے ہیں چالیس سال کی عمر میں نبی بنائے گئے۔ نبی بنائے نہیں گئے اعلان نبوت کیا تھا، سیدنا صدیق اکبرؓ واحد صحابی ہیں جن کی صحابیت کی گواہی قرآن پاک نے دی ہے صدیق اکبرؓ کی صحابیت کا انکار قرآن پاک کا انکار ہے جو کفر ہے اس لئے بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ سیدنا صدیق اکبرؓ واحد صحابی ہیں جن کی چار نسلیں صحابی ہوئی ہیں، والد ابی قحافہ عثمان بن عمرؓ خود صدیق اکبرؓ بیٹا عبدالرحمن بن ابوبکر اور پوتا محمد بن عبدالرحمنؓ سرکار دو عالم کے خاندان سے خصوصی نسبت تھی۔ سیدنا امام جعفر صادق کی والدہ محترم سیدہ ام فروہ بنت قاسم بن محمد بن ابوبکر ہیں۔ سیدنا ابوبکر کی پوتی سیدہ حفصہ بنت عبدالرحمن بن ابو بکر حضرت امام حسین کی زوجہ تھیں۔ اہل بیت سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ سرکار دو عالمﷺ کے و صال کے بعد منبر پر جلوہ افروز ہوئے تو امام حسینؑ تشریف لائے ابھی چھوٹے تھے منبر پر صدیق اکبرؓ کو جلوہ افروز دیکھ کر بولے یہ تو میرے بابا کا منبر ہے آپؓ نیچے اُترو ۔ سیدنا صدیق اکبرؓ نے چُوں نہیں کی فی الفور منبر سے نیچے اُتر آئے اور کہا سچ کہا آپ نے یہ تیرے بابا جان کی ہی جگہ ہے۔ آپؓ نے حضرت امام حسنؑ کو گود میں اُٹھا کر منبر پر تشریف لائے۔ بیتے دن یاد آگئے پھر آپؓ کی آنکھوں سے سیل رواں جاری ہو گیا۔ مجمع میں کوئی ایسا نہ تھا جس کی آنکھ سے آنسو نہ نکل رہے ہوں۔ حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ کے اتنے فضائل و خدمات ہیں کہ سرکارﷺ نے فرمایا جس کسی نے مجھ پر احسان کیا میں نے کوشش کی بدلہ چکا دوں مگر صدیق اکبر کی نیکیوں کا صلہ و بدلہ اللہ تعالیٰ قیامت میں ادا فرمائیں گے۔
٭٭٭