ایران میں ہر عمر کی خاتون کو مانتو پرپابندی سے حال ہی میں نرم کر دیا گیا ہے اس سے قبل سر پر اسکارف پہننا مطلب مانتو پہننا لازم تھا مانتو ایک عبایہ ہے جیسے ہمارے ہاں کی پردہ دار خواتین ایک لمبا برقعہ استعمال کرتی ہیں ایرانی حکومت انقلاب ایران کے وقت سے لیکر اب تک مانتو کے بارے میں بہت سختی سے عمل پیرا تھی اگر کوئی عورت بغیر مانتو کے بازار میں نظر آ جاتی تو پاسدران انقلاب ( ایرانی پولیس ) اس عورت کو پکڑ کر حوالات میں پہنچا دیتی جہاں سے کچھ عرصہ کے بعد اس یقین دہانی پر ہی چھٹکارا ملتا کہ آئندہ وہ ایسی حرکت نہیں کرے گی بالکل ایسے ہی جیسے طالبان داڑھی بڑھ آنے پر قید سے چھوڑ دیا کرتے تھے ایرانی معاشرہ اب اس پابندی کو تقریبا اپنا چکا تھا انقلاب ایران کے شروع شروع میں ایسے بہت سے کیسز نظر آتے تھے کہ پاسداران انقلاب کو حرکت میں آنا پڑتا تھا ماضی قریب میں پھر سے حالات اسی جانب جانے کو تھے جس کی مثال کچھ عرصہ قبل ایک ایرانی لڑکی کے سر عام سر سے اسکارف اتارنے اپنے بال کاٹنے اور مانتو بھی اتار پھینکنے پر پاسداران انقلاب نے اس لڑکی گرفتار کیا حوالات میں اس پر تشدد ہوا اور وہ جان سے گئی اس پر ایران میں ملک گیر احتجاجی مظاہرے ہوئے جسے ایرانی حکومت نے چھپانے کی بہت کوشش کی مگر بی بی سی کے علاوہ اور بھی کئی غیر ملکی میڈیا ہاوسز نے رپورٹ کیا اس پر ایران کی ایک یونیورسٹی کی طالبہ نے وہاں کے معاشرے کے حساب سے احتجاج کا بالکل اچھوتا طریقہ اختیار کیا تفاصیل ادھوری ہیں کہ اس نے کپڑے اتار کر صرف ٹو پیس کیٹ واک کی ہے جو کہ وائرل بھی ہوئی اور سنا کہ اس پاداش میں طالبہ کو گرفتار کر لیا گیا پیرس میں عورتوں کے ٹاپ لیس یا برہنہ اجتماعی احتجاجی مظاہرےآئے دن سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن ایران جیسے معاشرے میں جہاں پردے کی اتنی سختی ہو وہاں اس طرح کا احتجاج ضرور کوئی معنی رکھتا تھا راقم سال بھر ایران میں گزار چکا ہے ایرانی معاشرہ اندر سے اتنا ہی ننگا ہے جتنا کہ کوئی بھی ہو سکتا ہے بس مصنوعی مانتو چڑھا ہوا ہے انقلاب ایران سے پہلے میرے مرحوم چچا سراج بیگ جو کہ یو ایس آرمی میں میجر ریٹائرڈ ہوئے دوران سروس جب وہ تہران ڈیپوٹیشن پر تھے اسکی کہانیاں سناتے رہتے تھے کہ ایرانی معاشرہ اس قدر آزاد خیال تھا کہ شرابی اگر مدہوش ہو کر گر پڑتا تو پولیس اس کی جیب سے شناخت معلوم کر کے اسے گھر تک چھوڑنے آتی عورتوں کے اجتماعی حمام تو ابھی بھی موجود ہیں ایک واقعہ بارے عینی شاہد ہوں کہ ایک روڈ سائڈ ایکسیڈینٹ میں راہ چلتی خاتون کے گرنے پر معلوم ہوا کہ اس نے صرف مانتو ہی پہنا ہوا ہے راقم کے چھپنے والے افسانوی مجموعے کا نام بھیمانتو ہے جو حلقہ ارباب ذوق پسکاٹوے نیو جرسی نے پبلش کیاہے جس میں ایک افسانہ مانتو کے نام پر بھی ہے کہ ایرانی معاشرے کے کلچر رہن سہن اور نظریات بارے افسانوی انداز میں عکاسی موجود ہے ایران ایک پرانی تہذیب ہے جہاں کلچر ہے زبان شیریں ہے جس میں لچک، سہولت اور ادب و آداب کو اہمیت حاصل ہے انقلاب کی سختیاں ایرانی معاشرے کی ثقافت نہیں اور نہ ہی تاریخ میں اسکا زکر ملتا ہے ایسے نرم خو ماحول والی پرانی تہذیب کو اس طرح سے پابندیوں کی نظر کرنا سمجھ سے باہر ہے گھٹن زدہ ماحول میں مانتو میں نرمی کو خوش آمدید۔
٭٭٭













