دور فتن میں یورپ کے مسلمانوں کا مستقبل!!!

0
179
اوریا مقبول جان

یورپ میں مسلمانوں سے نفرت کی ایک تاریخ ہے جو صدیوں پر محیط ہے، قدیم روم کی سلطنت کے زیر نگیں ایشیا اور افریقہ کے سرسبز علاقے شام، فلسطین، مصر، لیبیا، تیونس اور الجیریا آتے تھے یہاں سے خوراک اور غلام برآمد کیے جاتے اور روم کی سلطنت کے خواص و عوام خوشحال اور خوش و خرم زندگی گزرتے۔ ایشیا اور افریقہ کے یہ تمام علاقے صدیوں سے عیسائیت کا مرکز تھے۔ مسلمانوں کی ابتدائی یلغار انہی علاقوں پر ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے چند سالوں میں یہ تمام مراکز جو دراصل مسیحی روم کے استحصال میں کچلے ہوئے تھے، اسلامی دنیا کا حصہ بن گئے۔ روم سمٹ کر رہ گیااور لوگ جوق در جوق اسلام بھی قبول کرنے لگے۔ عیسائی چرچ جو دراصل رومی سلطنت کا اصل حکمران تھا، اپنی اس ذلت آمیز شکست کے بعد ایک بالکل نئے انداز سے اسلام اور مسلمانوں پر حملہ آور ہوا۔ اس نے اسلام، رسول اکرم کی ذات مبارک اور قرآن حکیم کے بارے میں غلط تصورات پھیلانے کے لیے باقاعدہ علمی محاذپر کام شروع کیا تاکہ بچی کچھی رومی سلطنت کے باسیوں میں مسلمانوں کا ایک خوفناک، خونخوار اور ہیبت ناک تصور بنا کر پیش کیا جائے۔ کئی سالوں کی اس علمی کاوش کے بعد ایک عام یورپی شہری جو اسوقت رومن شہری تھا کے سامنے مسلمان کی جو تصویر پیش کی گئی وہ تین علامتوں پر مبنی تھی۔ ایک اونٹ جس پر مسلمان سواری کرتا ہے، ہتھیار جس سے وہ لوگوں کو قتل کرتا ہے اور بہت بڑاحرم جس میں بہت ساری عورتیں، بیویوں اور لونڈیوں کی صورت میں اس کے ساتھ ہوتی ہیں۔یہی صدیوں پرانی بنائی گئی تصویرآج تک یورپ کے بچے بچے تک منتقل کی گئی ہے اور یورپ میں مسلمانوں کا عمومی تاثر یہی ہے۔ مسلمانوں کی رواداری کا یہ عالم تھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز سے پہلے اموی دربار میں سینٹ جان آف دمشق ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھا۔ دربار میں اپنی اس حیثیت کے باوجود اس نے رسول اکرم کی شخصیت کے بارے قلمی ہرزہ سرائی کا آغاز کیا۔اسلام اور رسول اکرم کے بارے میں وہ تمام تصورات جن کی بنیاد پر آج یورپ میں رسول اکرم کے گستاخانہ خاکے بنائے جاتے ہیں، اسی شخص کی تحریروں سے لیے گئے ہیں۔ اس شخص کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے مامون الرشید کے درباری ابو یوسف یعقوب بن اسحاق نے 870 عیسوی میں قلمی نام عبدالمسیح الکندی اختیار کیا اور” الرسالہ” کے نام سے ایک مسلمان اور عیسائی کے درمیان فرضی دلآزار مکالمہ تحریر کیا۔ یہ دونوں کتب عیسائیت کے کتبی ذخیرے میں بھی موجود رہیں اور انہیں پادری مسلسل مسلمانوں کے بارے میں شاگردوں کی رائے بنانے کے لیے خاص طور پر تقسیم بھی کرتے تھے۔ مسلمانوں کی عالی ظرفی اور تحمل کا عالم یہ تھا کہ اسپین میں اسلامی حکومت کے عروج کے زمانے یعنی بارہویں صدی عیسوی میں الکندی کے اس ”الرسالہ” کا لاطینی ترجمہ اسلامی ریاست کے شہر طیطیلہ (Toledo) میں کیا گیا جو پیٹر آف ٹولیڈو اور اس کے ساتھیوں نے کیاتھا۔ اس ترجمے کی لاطینی ذرا بہتر نہ تھی تو اسے فرانس کے ادیب پیٹر آف پواٹزیر (Peter of Poitiers) نے اس کی کی نوک پلک درست کی اور اسے ایک ادبی انداز دیا۔ ان دونوں ادیبوں کو عیسائی مذہب کی ایک اہم شخصیت پیٹر آف وینی ربیل (Peter of venerable) نے اس کام کے لئیے اپنے پاس ملازم رکھا ہوا تھا۔ یہی وہ شخصیت تھی جس نے قرآن پاک کا ترجمہ کروایا اور پھر اس میں تحریف کر کے لاتعداد نسخے تیار کروائے۔ الکندی کے اسی ”الرسالہ” کا ایک اور ترجمہ سوئٹزرلینڈ میں پندرہویں صدی میں بھی کیا گیا۔ جیسے ہی چھاپہ خانہ ایجاد ہوا تو پروٹسٹنٹ فرقے کے بانی مارٹن لوتھر نے اس کتاب کو عام عیسائیوں میں چھپوا کر تقسیم کروا دیا۔ جدید یورپ میں ولیم میور نے اس کا ترجمہ ”Apology”یعنی معذرت کے نام سے 1882 میں کیا اور اس وقت تک یہ کتاب اسلام کے بارے میں لکھی جانے والی بیشتر کتابوں، مسلمانوں کے بارے میں شائع ہونے والے مضامین اور چرچ میں پادریوں کی تقریروں سے لے کر مسلمان دشمن گروہوں، سکالروں اور دیگر افراد کی گفتگو اور مباحث میں ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کتاب ایک عیسائی اور مسلمان کا مکالمہ ہے جس میں رسول اکرم کی ذات، ازواج مطہرات اور صحابہ کرام پر اخلاقی الزامات لگائے گئے ہیں اور اسلام کو یہودیوں اور عیسائیوں سے نقل کردہ روایت سے وضع کردہ مذہب بتایا گیا ہے (نعوذ باللہ)۔ مسلمانوں، رسول اکرم اور اسلام کے بارے میں یہ تصور یورپ میں بسنے والے لوگوں میں اس قدر عام ہے کہ آج بھی اگر کوئی لکھاری کسی دہشت گردی کے واقعے پر مضمون تحریر کرنے لگتا ہے تو مسلمانوں کی نفسیات بتانے کے لیے وہ ان قدیم کتابوں کے حوالے تحریر کرتا ہے۔ ان دونوں کتابوں کے بعد مغربی مستشرقین کی ایک طویل فہرست جس میں جارج سیل، مارگو لیتھ، ولیم میور، منٹگمری واٹ، جرجی زیدان، اور ہملٹن گب جیسے لاتعداد مصنفین شامل ہیں جن کی تحریروں کا موضوع بظاہرتو اسلام اور مسلمان تھا مگر انھوں نے انتہائی خوبصورت انداز میں غیرجانبداری کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کی تاریخ اور تصور کو بری طرح مسخ کیا۔ جس طرح بھارت میں مسلمانوں سے تعصب کی فکری بنیادیں ساورکر اور گول وارکر کی ”ہندوتوا” کے تصور پر لکھی گئی اولین تحریریں ہیں اسی طرح یورپ میں مسلمانوں سے نفرت کا علمی پس منظر اور علمی بنیاد پہلی دو کتابیں اور پھر ان کی معلومات پر مبنی لاکھوں تحریریں،ان پر استوار کیا گیاہے۔یورپ میں یہ بنیاد گہری تو پہلے سے تھی مگر اب مزید گہری ہوتی چلی جارہی ہے۔ آج سے پندرہ سال پہلے بہت سے لکھنے والوں نے بار بار اس خوف کا اظہار کیا تھا کہ مسلمانوں سے یورپ میں نفرت کی یہ لہر اس قدر شدید ہو سکتی ہے کہ ایک دن یورپ کے مسلمانوں کے ساتھ شاید وہی سلوک ہو جیسا کئی صدیاں پہلے سپین میں ہوا تھا یا پھر جو سلوک جرمن ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا۔ یورپ میں رہنے والوں کی خدمت میں سید الانبیاءکی یہ وارننگ بہت پہلے پیش کی تھی۔آپ نے قبیلہ خثعم کی جانب ایک سریہ بھیجا۔ وہاں کچھ مسلمان مشرکوں سے مل جل کررہ رہے تھے۔ انہوں نے سجدہ کرکے بچنا چاہا، پھر بھی لوگوں نے انہیں قتل کرنے میں جلد بازی کی۔ رسول اکرم کو اس کی خبر ملی تو آپ نے ان کی نصف دیت کا حکم دیا اور پھر فرمایا ” میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے۔ صحابہ نے پوچھا آخر کیوں۔ آپ نے فرمایا مسلمانوں کو کافروں سے اتنی دوری پر سکونت اختیار کرنی چاہیے کہ دونوں ایک دوسرے کی آگ نہ دیکھ سکیں (الترمذی، نسائی، ابوداو¿د)۔ یعنی مشرکوں کے درمیان رہنے کے جرم میں رسول اکرم نے ان مسلمانوں کی دیت تک آدھی کردی تھی۔ اس حدیث سے منہ موڑ کر جو لوگ آج یورپ میں آباد ہیں ان کے انجام کے بارے میں دور فتن کے زمانے کی ایک ایسی خوفناک تصویر احادیث میں ملتی ہے کہ دل خوف سے کانپ اٹھتا ہے۔ یہ حدیث نعیم بن حماد کی ”کتاب الفتن” کے اس باب میں ہے جہاں آخری بڑی جنگ کا تذکرہ ہے جس میں اہل روم اسی جھنڈوں تلے نو لاکھ ساٹھ ہزار سپاہی لے کر مسلمانوں سے بِراعماق کے مقام پر حملہ آور ہوں گے۔ یہ حدیث حضرت عبد اللہ ابن مسعود سے روایت اور بہت طویل ہے۔ اس بڑی عالمی جنگ کے دوران یورپ میں رہنے والے مسلمانوں کے خوفناک انجام کی طرف اشارہ ہے آپ نے فرمایا، ” جو عرب باقی رہ جائیں گے، رومی ان پر ٹوٹ پڑیں گے، اور ان کو قتل کر دیں گے، یہاں تک کہ روم کی سرزمین میں کوئی عرب مرد، عورت یا بچہ قتل ہوئے بغیر نہیں بچے گا (کتاب الفتن۔باب الاعماق و قسطنطنیہ)۔ دنیا جس عالمی جنگ کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہے اور دور فتن میں جس جنگ کی خبر دی گئی اس میں سب سے خوفناک انجام ان مسلمانوں کا بتایا گیا ہے جویورپ والوں پر بھروسا کر کے وہیں رہ جائیں گے۔ ان کی عورتیں اور بچے تک قتل کر دیے جائیں گے۔ (ختم شد) نوٹ۔ ایک شخص کو اپنے بھائی کے علاج کیلئے کچھ دوائیوں اور انجکشن کی ضرورت ہے اس کے پاس ڈاکٹر کے نسخہ جات موجود ہیں جنہیں دیکھا جا سکتا ہے صاحب دل حضرات اس نمبر پر رابطہ کر کے اس کی مدد کر سکتے ہیں (03095834043)
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here