جمعرات کی سہ پہر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس ہوا۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے شرکاءمیں وفاقی وزراءسمیت جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی اور تینوں مسلح افواج کے سربران شریک ہوئے۔ یہ اجلاس پانچ گھنٹے تک جاری رہا۔ اجلاس میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی افغان پالیسی کے حوالے سے تقریر کا پاکستان کے قومی مو¿قف کی روشنی میں بنظر غائر جائزہ لیا گیا۔ قومی سلامتی کمیٹی نے صدر امریکہ کے اس الزام کو یکسر مسترد کر دیا کہ افغانستان میں امریکی افواج کو مقامی مزاحمتی عوامی قوت طالبان پر محض اس لیے فتح حاصل نہیں ہو رہی کہ پاکستان میں اُن کے محفوظ ٹھکانے ہیں۔ امریکہ یہ الزام 2004ءسے ایک تسلسل اور تواتر کے ساتھ لگا رہا ہے۔نہ ماضی کی امریکی انتظامیہ اور نہ ہی ٹرمپ انتظامیہ پورے وثوق سے یہ تعین کر سکی کہ پاکستان میں امریکی افواج کو ہزیمت سے دوچار کرنے والے افغان جنگجوو¿ں کے محفوظ ٹھکانے کہاں ہیں؟ جہاں سے افغانستان میں مداخلت کی جا رہی ہے۔ اس کے برعکس قومی سلامتی کمیٹی کے مطابق مشرقی افغانستان میں دہشت گردوں کے کئی ٹھکانے ہیں جو افغانستان کے علاوہ پاکستان میں بھی دہشت گردی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اعلامیہ میں صاف اور صریح الفاظ میں امریکہ کو یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ وہ افغانستان کی جنگ پاکستان میں نہیںلڑ سکتا نیز اس الزام کو بھی دو ٹوک الفاظ میں مسترد کر دیا گیا ہے کہ پاکستان کسی بھی حوالے سے افغانستان کی خانہ جنگی کے کسی فریق کا کسی بھی سطح پر ساتھ دے رہا ہے۔ جہاں تک صدر امریکہ کی جانب سے اس ”احسان“ کا جتانے کا تعلق ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو ارب ہا ڈالرز دیئے، پاکستان کی قومی قیادت نے امریکی حکومت اور دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ یہ رقم زمرہ¿ امداد میں نہیں تھی بلکہ افغان جنگ کے دوران امریکہ نے پاکستان کے اڈے، بندرگاہیں، شاہراہیں اور دوسری سہولیات استعمال کرنے کے عوض ادا کی، اس پر بھی کٹوتی لگا دی گئی۔ پاکستان نے افغانستان پر مسلط کردہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد بین الاقوامی جنگ کے دوران جو ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا نقصان اُٹھایا ہے، اس کا امریکی حکام کے بیانات میں کبھی اشارةً بھی ذکر نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ہماری قربانیوں کا کماحقہ¾ اعتراف کیا جاتا ہے۔ ہماری فوج اور بے گناہ شہریوں کی اس جنگ کے دوران ہلاکتیں اس پر مستزاد ہیں۔ اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کی داخلی حدودکے اندر افغان مہاجرین کے جو کیمپ موجود ہیں، وہاں نہ صرف دہشت گردوں کو تربیت دی جاتی ہے بلکہ وہ منشیات کے گڑھ ہیں اور منشیات کی سمگلنگ کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔ اندریں حالات ان افغان مہاجرین کی واپسی از بس ضروری ہو چکی ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں امریکہ کو پیشکش کی گئی ہے کہ پاکستان، افغان اور امریکی حکومت کے ساتھ آبرو مندانہ، باوقار اور باعزت شرائط پر تعاون کرنے کے لیے تیار ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ خطے کے جملہ امور ومعاملات امریکہ بھارت کے سپرد کرد ے۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ بھارت خطے کا وہ ملک ہے جس کے اپنے ہر ہمسایہ ملک کے ساتھ تنازعات ہیں اور پاکستان کے خلاف تو وہ روز اول سے معاندانہ کارروائیوں میں مصروف ہے اور اس کی انتہائی کوشش ہے کہ پاکستان کے گرد شرق و غرب سے گھیرا ڈالنے کی مذموم کوششوں کو آگے بڑھایا جائے، ایسے ملک کا افغانستان کے اندر کردار کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے خواہ وہ امریکہ کی سرپرستی میں ہو؟ یہ امر پیش نظر رہے کہ اجلاس میں وفاقی وزیر خارجہ خواجہ آصف کو مینڈیٹ دیا گیا کہ وہ اپنے امریکی ہم منصب ریکس ٹلر سن کی دعوت پر واشنگٹن جانے سے پہلے عوامی جمہوریہ چین اور علاقے کے دیگر دوست ممالک کا دورہ کریں اور اُنہیں زمینی حقائق اور معروضی صورت حال سے باخبر کریں اور اُن کا اعتماد حاصل کریں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے ایک روز قبل وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی قیادت میں وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ پر مشتمل وفد سعودی عرب گیا اور مملکت سعودی عرب کے ولی عہد شہزاد محمد بن سلمان سے تفصیلی ملاقات کی۔ دوران ملاقات وزیراعظم نے اُنہیں صدر امریکہ کی تقریر پر پاکستان کے تحفظات اور ردعمل سے آگاہ کیا۔ اس طرح دیرینہ اور آزمودہ دوست سعودی عرب کو پوری طرح اعتماد میں لیا۔ پاکستان کے لیے یہ امر یقینا حوصلہ افزائی کا باعث ہے کہ عین اس وقت جب صدر امریکہ نے افغانستان میں اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالتے ہوئے ہمارے خلاف الزامات سے بھرپور تقریر کی، خطے کی دو بڑی طاقتوں چین اور روس نے امریکہ کو خبردار کیا کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوئی کوشش پورے خطے کو غیر مستحکم کر کے حالات کو مزید بگاڑ نے کا موجب بن سکتی ہے لہٰذا اس سے احتراز کرنا چاہیے اور پاکستان کی خود مختاری کا احترام کیا جانا چاہےے۔ چین کی وزارت خارجہ کے اعلیٰ نمائندے نے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کا اعتراف کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ کو ٹیلی فون کر کے پاکستان مخالف پالیسی سے احتراز کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کے نتیجہ میں افغانستان امریکہ کے لیے بند گلی ثابت ہو گا۔نیز افغانستان میں پاکستان کا کردار اہم ہے اور تعاون کے بغیر خطے میں استحکام مشکل ہو گا۔ اسی تناظر میں یہ امر بھی حوصلہ افزا ہے کہ گزشتہ 70 برسوں کی تاریخ میں روس نے پہلی مرتبہ پاکستان کی اس انداز میں حمایت کا اعلان کیا ہے۔ یہ بلاشبہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی خارجہ پالیسی کی کامیابی ہے کہ خطے کی اتنی بڑی طاقت جو ہماری دشمن تصور کی جاتی تھی، اُس نے موجودہ بحران میں پاکستان کی جانب دست رفاقت و تعاون بڑھایا ہے۔ پاکستان کی جانب سے امریکی انتظامیہ پر یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ ہمیں اس کی امداد کی ضرورت نہیں ہے۔ اس ضمن میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے بیانات اہمیت کے حامل ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ گزشتہ سوا چار سال کے دوران حکومت کی اقتصادی پالیسیوں نے ہمارے ملک کو بڑی حد تک غیر ملکی امداد کا محتاج نہیں رہنے دیا۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر لبالب بھرے ہیں، سی پیک کے منصوبے کی وجہ سے چین پاکستان میں 45 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کر رہا ہے اور دوسرے ممالک سے بھی سرمایہ کار یہاں آ رہے ہیں۔ ہماری معیشت مستحکم ہو چکی ہے اب اسے کسی بیساکھی کی ضرورت نہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی نے اس حقیقت کو بھی الم نشرح کر دیا ہے کہ ہمارا ایٹمی پروگرام اور اس کی جملہ تنصیبات ہر طرح سے محفوظ ہاتھوں میں ہیں اور انہیں کسی جانب سے کوئی خطرہ نہیں۔ اس سلسلہ میں حکومت پاکستان نے جو حفاظتی طریق کار اختیار کیا ہے، اس کے فول پروف ہونے میں کسی کو شبہ نہیں۔ اجلاس کے بعد وزیراعظم اور وزیر خارجہ دونوں نے سینٹ کے اجلاس میں شرکت کی ، انہوں نے ایوان بالا کو یقین دلایا کہ پارلیمنٹ پالیسی کے حوالے سے جو بھی خدو خال اجاگر اور جو خطوط وضع کرے گی، حکومت اس میں پوری طرح تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔
واضح رہے کہ پارلیمنٹ کی جماعتوں کی طرف سے اس حساس اور نازک موقع پر مشترکہ اجلاس بلانے کا بھی مطالبہ کیاگیا ہے۔ ہمارے نزدیک مشترکہ اجلاس کے انعقاد میں کسی طور تاخیر نہیں ہونا چاہےے۔ اور قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں جس مو¿قف کا اظہار کیا گیا اور پارلیمنٹ کے اجلاس میں تیار کردہ دفاعی و خارجہ پالیسی کو قطعی و آخری شکل دینی چاہےے۔ ہمارے نزدیک اس کے نتیجہ میں امریکی حکام اور واشنگٹن انتظامیہ کو صاف اور واضح پیغام جائے گا کہ پاکستانی قوم اور اس کے دفاعی ادارے اپنے دفاع کے لیے چوکنا ، حساس اور ہوشیار و بیدار ہیں اور منتخب پارلیمنٹ کی رہنمائی میں قوم کا اعتماد بھی اپنا اظہار پائے گا جو یقینا وقت کی ایک بڑی ضرورت ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں ریاستی مو¿قف کا اظہار کیا ہے اس نے امریکی دھمکیوں کے پیش نظرقوم کے حوصلوں اور مورال میں بھی اضافہ کیا ہے۔ حکومت کا فرض ہے وہ جو خارجہ پالیسی وضع کرے اس کو پارلیمنٹ کے رہنما اصولوں کی روشنی میں تیار ہونا چاہےے اور اس پر من و عن عمل بھی ہونا چاہےے۔ یہ ایک جماعت کا مسئلہ نہیں، تمام ریاستی اداروں اور ملت کے ہر فرد کا مسئلہ ہے۔ اس پر من حیث القوم ہمیں پورے عزم و استقلال اور دانش و بصیرت کے ساتھ ڈٹ جانا چاہےے۔