بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی طرف میانمار کے دورے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت نے میانمار کی حکومت کے موقف کی حمایت کرنے میں غیرمعمولی احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے کہ بھارت کی طرف سے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کسی بھی قسم کی ساتھ دینے کے بات نہیں کی گئی اور نہ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کے ہمدردانہ طرزعمل کا اختیار کیا گیا ہے۔میانمار کے اپنے پہلے باہمی دورے کے دوران بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے کہا کہ وہ راکھین ریاست میں انتہاءپسندانہ تشدد کے ضمن میں میانمار حکومت کی تشویش سے آگاہ ہیں جہاں گزشتہ کئی ہفتوں سے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ناقابل یقین تشدد کی لہر پھیل چکی ہے۔مزیدبرآں، Sustainable Developmentکے حوالے سے World Parliamentary Forum کی لوک سبھا سپیکر Sumitra MahajanنےBali Declaration میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ راکھین ریاست میں تشدد کا حوالہ دیا گیا تھا۔
نئی دہلی روایتی طور پر اپنے ہمسایہ ممالک کے اندرونی معاملات کو بین الاقوامی سطح پر اچھالنے کی کوشش کرتا ہے۔جہاں تک میانمار کا تعلق ہے، اسے اس امر کی تشویش ہے کہ کہیں برما، چین کے حلقے میں نہ چلا جائے۔لیکن بھارت کو اس وقت انسانی ہمدردی پر مبنی موقف اختیار کرنا چاہیے جب میانمار کی راکھین ریاست کے پناہ گزینوں کا معاملہ سامنے آتا ہے جنہیں اپنے ملک کی شہریت بھی حاصل نہیں اور وہ کسی بھی ملک کو اپنا وطن کہنے سے قاصر ہیں۔ اس ہفتے جب روہنگیا مسلمانوں کا معاملہ بھارت کی سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے آیا، حکومت کے وکیل نے یہ ضمانت دینے سے انکار کر دیا کہ انہیں ملک بدر نہیں کیا جائے گا۔حکومت کے وکیل کا یہ موقف حکومت کی طرف سے پارلیمان کو ایک اشارہ تھا تمام غیرقانونی پناہ گزیں،جن میں کم ازکم40,000روہنگیا مسلمان بھی شامل ہیں، کو ملک بدر کر دیا جائے۔ بھارتی حکومت کے اس منصوبے کی غیرانسانی حساسیت، روہنگیا میں بحران کی نشاندہی کر رہا ہے جو وہاں صدیوں سے رہ رہے ہیں۔اس وقت روہنگیا مسلمان، برما سے برسوںسے ہی کشتیوں کے ذریعے باہر جا رہے ہیں۔ لیکن روہنگیا مسلمانوں کے اس بحران میں اس وقت کہیں زیادہ شدت پیدا ہو گئی جب25 اگست کو ایک انتہاپسند روہنگیا دھڑے نے سرحد ی فوج کی چوکیوں پر حملہ کر کے بہت سے فوجیوں کو ہلاک کر دیا۔ اس وقت اقوام متحدہ کے ایک اندازے کے مطابق 270,000 افراد، جن میں سے زیادہ تر راکھین ریاست میں روہنگیا مسلمان ہیں، ملک میں فوجی کے ظلم وستم سے پریشان ہو کر بیرون ملک، خاص طور پر بنگلہ دیش میں پناہ گزیں ہو چکے ہیں۔ حقیقت ہے کہ 1992سے ہی روہنگیا مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں جب برما کی حکومت کے ایک قانون کے مطابق انہیں کسی بھی قسم کے شہری حقوق سے محروم کر دیا گیا کیونکہ حکومت نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ یہ لوگ بنگالی ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ تاریخ کے ہر دور میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ظلم وستم کا سلسلہ جاری رہا ہے جب کہ 2012ءمیں یہ سلسلہ اس وقت تیزی اختیار کر گیا جب بدھوں کے ساتھ مذہبی تنازع کے باعث انہیں فسادات کے دوران بڑی تعداد میں ہلاک کیا گیا اور بہت سوں کو بے گھر کر دیا گیا اور وہ اس وقت سے اندرون اور بیرون ملک امدادی کیمپوں میں مقیم ہیں۔
2014ءمیں برما میں مردم شماری کے موقع پر انہیں برما کا شہری تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا اور ان کے پاس صرف یہی راستہ رہ گیا کہ وہ خود کو بنگالیوں کی حیثیت سے شناخت کرائیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ میانمار میں فوجی راج کے بعد جمہوریت آنے کے باوجود نوبل انعام یافتہ آنگ سو کی سربراہی میں روہنگیا مسلمانوں پر ظلم وستم کا سلسلہ دراز ہو چکا ہے، انہیں کہیں زیادہ تعداد میں ہلاک کیا جا رہا ہے، ان کے گھربار اور گاﺅںکے گاﺅں نذرِ آتش کیے جا رہے ہیں۔
اقوام متحدہ نے میانمار کی اس کارروائی کوانسانیت کے خلاف جرم قرار دیا ہے جبکہ نوبل انعام یافتہ ایک پادری ڈیسمنڈٹوٹو نے فوجی کارروائی کو مسلمانوں کی نسل کشی قرار دیا ہے اور پھر دنیا کی کم عمرترین نوبل انعام یافتہ خاتون ملالہ یوسف زئی نے بھی آنگ سوکی سے کہا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں پر ظلم وستم بند کیا جائے۔
٭٭٭