اسرائیل: مشتبہ بدعنوان وزیراعظم!!!

0
891

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو، ان کے خاندان اور ان کے قریبی حلقے کی قانونی مشکلات کم ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ ایک ہفتے کے اندر ہی ان کے سابق چیف آف اسٹاف Ari Harowنے دفتر مستغیث اور پولیس کے ساتھ شہادت کی ایک ایسی دستاویز پر دستخط کیے جس نے اس امر کی تصدیق کی کہ وہ رشوت ستانی، دھوکادہی اور اعتماد کی خلاف ورزی کے ایک معاملے کی تحقیق کر رہے ہیں جس میں وزیراعظم ، بنجمن نیتن یاہوکے ملوث ہونے کا شبہ ہے۔ ان کی اہلیہ سارا سے پولیس نے کئی بار عوامی رقوم کے غبن کے ضمن میں پوچھ گچھ کی اور ان کے بیٹے Yairپر فیس بک پر ایک پوسٹ کے حوالے سے ازالہ حیثیت عرفی کے لیے مقدمہ بھی چلایا گیا۔وزیراعظم، بنجمن نیتن یاہو کے سابق چیف آف اسٹاف، جنہوں نے ان کے ساتھ ایک دہائی سے زائد عرصے تک کام کیا، سلطانی گواہ بننے کے لیے تیار ہو گئے جبکہ ان کے خلاف ٹیکس حکام کو دھوکا دینے کا مقدمہ چل رہا ہے۔ان کی شہادت وزیراعظم کے خلاف ایک گواہی کا کام دے گی جن پر الزام ہے کہ انہوں نے کاروباریوں سے غیرقانونی تحائف وصول کیے۔وزیراعظم ، بنجمن نیتن یاہوپر ایک اور خفیہ معاہدہ بھی طے کرنے کا الزام ہے جس کے تحت انہوں نے ایک مشہور اخبار میں اپنے متعلق اہم خبریں شائع کرانے کے عوض ایک اور شخص کو خاص مراعات دینے کی پیشکش کی تھی۔7 اگست کو اسرائیل کی ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ جاری کیا کہ اس ضمن میں مسٹرنیتن یاہو کو اپنے فون کا ریکارڈ دکھا دینا چاہیے۔
ممکن ہے کہ وزیراعظم، بنجمن نیتن یاہو کے سابق چیف آف اسٹاف دو مزید اہم امور کے متعلق تحقیقات پر روشنی ڈال سکیں جن میں نیتن یاہو کے قریبی ساتھی ملوث ہیں۔ مزید یہ کہ ان کے ذاتی اٹارنی کے متعلق بھی شک ہے کہ انہوں نے گزشتہ چار برس کے دوران اسرائیلی بحریہ کو جنگی سازوسامان کی فروخت کے ضمن میں رشوت وصول کی۔وزیراعظم۔ بنجمن نیتن یاہو کے ایک اور سابق چیف آف اسٹافShlomo Filberپر بھی شک ہے کہ انہیں وزارت مواصلات سے اس لیے نکالا گیا تھا کیونکہ انہوں نے اسرائیل کی سب سے بڑی مواصلات کی کمپنی کو خفیہ کاغذات فراہم کیے لیکن ان دونوں معاملات میں وزیراعظم، بنجمن نیتن یاہو مشتبہ نہیں ہیں۔ اس وقت ملک کے اٹارنی جنرل Avichai Mandelblitپر عوامی دباﺅ قائم رکھنے کی خاطر ہفتہ واری احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔۔یہ بھی حقیقت ہے کہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے خلاف گزشتہ چار برس سے ہی تفتیش جاری ہے۔ دریںاثنائ، وزیراعظم اور ان کے حامیوںنے مختلف ہتھکنڈے اختیار کیے ہیں۔اپنے سوشل میڈیا اکاﺅنٹ کے ذریعے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہونے اسرائیلی پریس کو ”جعلی خبروں“کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ ان کے حامی کہتے ہیں کہ اسرائیلی پریس ایک منتخب حکومت کوگر انے کی کوشش کر رہا ہے۔ حتیٰ کہ دایاں بازو، جو یاہو کے لیے ماضی میں بہت اہم رہاہے،نے بھی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو نشانے پر رکھ لیاہے۔وزیرتعلیم نے کہا کہ اٹارنی جنرل کے خلاف احتجاج اور نہ میڈیا بلکہ حقائق ہی کو فیصلہ کرنا چاہیے جو اس وقت یاہو کے مخالف معلوم ہو رہے ہیں۔ان کا مزید کہنا ہے کہ ان کی طرف سے نیتن یاہوکی حمایت کی جا رہی ہے اور امید ہے کہ 2019ءمیں انتخابات بروقت منعقد ہوں گے۔تحقیقات میں شدت پیدا ہونے کے باوجود،ممکن ہے کہ نیتن یاہو زیادہ عرصے تک اقتدار میں رہیں۔جب پولیس کی طرف سے تفتیش مکمل ہو جائے گی تو پھر اس کا انحصار اٹارنی جنرل پر ہو گا کہ وہ مشتبہ افراد سے جرح کے بعد ان کے لیے سزا کا اعلان کریں لیکن یہ عمل مہینوںپر مشتمل ہو سکتا ہے۔اور اگر وزیراعظم کو مجرم قرار دے بھی دیا جاتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بقا کی جنگ لڑیں گے۔اسرائیلی قانون کے تحت،اس وقت تک وزیراعظم کو استعفیٰ دینے کی ضرور ت نہیں جب تک اسے سزا نہیں ہو جاتی۔جب تک دائیں بازو اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ان کا اتحاد جاری رہے گا، انہیں آئندہ انتخابات سے پہلے سیاسی منظرنامہ سے بے دخل نہیں کیا جا سکے گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here