امریکا میں سیاہ فام کی ہلاکت پر ہنگامے جلاؤ گھیراؤ، کئی شہروں میں کرفیو نافذ

0
100

واشنگٹن:

امریکا میں سیاہ فاموں کے ساتھ نسلی امتیاز اور تعصب کیخلاف پرتشدد مظاہرے شدت اختیار کرگئے ہیں اور حالات سنگین ہونے کے باعث کئی شہروں میں کرفیو نافذ کرکے فوج تعینات کردی گئی ہے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق پولیس تشدد سے سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے خلاف ملک گیر احتجاج جاری ہے۔ ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل کر احتجاج کررہے ہیں اور اس دوران پولیس موبائل سمیت کئی گاڑیوں اور دکانوں کو نذرآتش کردیا گیا ہے۔ جگہ جگہ دھویں کے بادل اٹھ رہے ہیں اور افراتفری کے مناظر ہیں۔

پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں اہلکاروں سمیت درجنوں افراد زخمی ہیں۔ جلاؤ گھیراؤ کا سلسلہ پورے امریکا میں جاری ہے اور اس دوران لوٹ مار بھی ہورہی ہے۔ مشتعل افراد نے بہت سی دکانوں کے شیشے توڑ کر انہیں لوٹ لیا ہے۔ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 1400 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کرلیا ہے۔

متعدد شہروں اور ریاستوں منیسوٹا، اٹلانٹا، لاس اینجلز، ٹیکساس،کیلیفورنیا،نیویارک، کولمبیا کے میئرز نے کرفیو نافذ کرکے نیشنل گارڈ کو طلب کرلیا ہے۔ ملک بھر میں پولیس اور فوج کی بھاری نفری تعینات ہے تاہم مظاہرین کے اشتعال اور غم و غصے کے آگے بے بس نظر آرہی ہے۔ اس احتجاج میں سیاہ فاموں کے ساتھ ساتھ سفید فام شہری بھی شامل ہیں۔

 

بعض مظاہرین نے رکاوٹیں عبورکرکے امریکی ایوان صدر وائٹ ہاؤس میں بھی داخل ہونے کی کوشش کی جو پولیس کی بھاری نفری نے ناکام بنادی تاہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور انہوں نے کہا کہ مظاہرین وائٹ ہاؤس میں داخل ہوئےتو انہیں خونخوارکتوں،سیکیورٹی اہلکاروں کاسامنا کرنا پڑیگا۔

اس بیان سے مظاہرین میں شدید اشتعال پھیل گیا اور انہوں نے اسے اپنے لیے ایک چیلنج سمجھتے ہوئے وائٹ ہاؤس پر دھاوا بولنے کا عزم کیا ہے۔ ان ہنگاموں کی کوریج کے دوران بہت سے صحافی بھی ربڑ کی گولیاں لگنے سے زخمی ہوگئے ہیں۔

واضح رہے کہ 25 مئی کو منیسوٹا میں امریکی پولیس کے تشدد سے سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ ہلاک ہوگیا تھا۔ اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہوگئی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سفید فام پولیس اہلکار نے اپنا گھٹنا جارج فلائیڈ کی گردن پر رکھ کر اتنا شدید دباؤ ڈالا کہ اس کی گردن ٹوٹ گئی۔ امریکی پولیس نے ہلاکت میں ملوث 4 اہلکاروں کو نوکری سے برطرف کردیا ہے تاہم مظاہرین ان پر قتل کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here