وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد براڈ شیٹ کمیشن کی رپورٹ عام کردی گئی ہے۔ رپورٹ میں جہاں معاہدے کی تفصیلات طے کرنے والوں کو قصوروار ٹھہرایا گیا ہے وہاں اس امر کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ افسر شاہی حقائق کو سامنے لانے میں مزاحم ہوتی رہی ہے۔ براڈ شیٹ کمپنی کے سربراہ جسٹس (ر) عظمت سعید کا کہنا ہے کہ افسر شاہی نے براڈ شیٹ سے متعلقہ ریکارڈ چھپانے اور گم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ براڈ شیٹ کمپنی کسی ریاست کے شہریوں کے بیرون ملک بنائے اثاثوں کا پتہ لگانے اور پھر متعلقہ ریاست کی جانب سے ان اثاثوں کی منتقلی کے معاملات نمٹانے کا کام کرتی ہے۔ 1999ءمیں جب جنرل پرویز مشرف نے نوازشریف حکومت کو چلتا کیا تو انہیں نوازشریف کے خلاف کرپشن کی شکایات کی تحقیق کے لیے ایسے ذرائع کی ضرورت پڑی جو نوازشریف کی بیرون ملک غیرقانونی دولت اور اثاثوں کا پتہ چلا سکیں۔ پیپلزپارٹی کی حکومت بڑے منصوبوں میں کک بیک اور کمیشن لینے کے کئی شواہد نوازشریف کے خلاف جمع کر چکی تھی۔ نوازشریف خاندان نے لندن کے مہنگے علاقوں میں اثاثے خرید رکھے تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے نیب کا ڈھانچہ نئے سرے سے تشکیل دیا اور اپنے قابل بھروسہ جنرل سید امجد کو اس کا سربراہ مقرر کیا۔ جنرل سید امجد کی نوازشریف کے خلاف تحقیقات کے دوران امریکہ کی ایک کمپنی کے نمائندے طارق فواد ملک سے ملاقات ہوئی۔ اسی طارق ملک اور امریکی کمپنی کے مالک جیری جیمز نے مل کر براڈ شیٹ کمپنی کی بنیاد رکھی۔ کمپنی کے دفاتر برطانیہ میں بنا کر نیب سے معاہدہ کیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ابتدائی طور پر کمپنی کو نیب نے پانچ ملین ڈالر ادا کئے۔ اس دوران براڈ شیٹ کو پاکستانی حکام نے ایسے دو سو پاکستانیوں کی فہرست فراہم کی جن کے بیرون ملک اکاﺅنٹس‘ جائیدادوں اور اثاثوں کا پتہ چلایا جانا تھا۔ براڈ شیٹ نے کام شروع کیا تو جنرل پرویز مشرف اور شریف خاندان کے درمیان دس سالہ معاہدہ ہو گیا۔ یوں اس فہرست میں شامل کئی اہم افراد سعودی عرب پہنچ گئے۔ جنرل سید امجد ریٹائر ہو گئے اور اس فہرست کا معاملہ التوا میں چلا گیا۔ 2003ئ میں براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدہ پاکستان نے یکطرفہ طور پر ختم کردیا۔ براڈ شیٹ کمپنی تحلیل ہو گئی۔ 2007ئ میں براڈ شیٹ دوبارہ فعال ہوئی۔ عدالت میں جانے کی دھمکی پر جیری جیمز کے ذاتی اکاونٹ میں عدالت سے باہر معاملات طے کرنے کے لیے پندرہ لاکھ ڈالر منتقل کر دیئے گئے۔ جلد ہی کمپنی دیوالیہ قرار دے دی گئی۔ 2008ءمیں کاوے موساوی نے اسے پھر سے متحرک کیا۔2008ءمیں طارق ملک کے خلاف تحقیقات شروع ہوئیں اور وہ اشتہاری کے طور پر بیرون ملک چلے گئے۔ جیری جیمز نے 2011ءمیں خودکشی کرلی۔ موساوی کے دعوے کی تحقیق کی گئی اور ریاستی اداروں کی تفتیش سے یہ بات سامنے آئی کہ سرکاری سطح پر بدانتظامی کے بعض معاملات وقوع پذیر ہوئے۔ نوازشریف حکومت مصالحتی عدالت کو یہ باور کرانے میں ناکام رہی کہ حکومت پہلے ہی مالی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو چکی ہے۔ کمپنی کو دوبار کی ادائیگیوں کے عوض پاکستان کو کوئی فائدہ نہ ہوا۔ کاوے موساوی نے جب ریاست کے خلاف 30 ملین ڈالر ہرجانے کا مقدمہ دائر کرنے کا کہا تو موجودہ حکومت نے اس سارے معاملے کی انکوائری کرانے کا فیصلہ کیا۔ بلاشبہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہونے والے معاہدے میں بہت سے نقائص تھے جن کی وجہ سے براڈ شیٹ کا معاملہ درد سر بن کر رہ گیا۔ اسی طرح اس معاملے پر نوازشریف حکومت نے بوجوہ توجہ نہ دے کر ملک کی عالمی مشکلات میں مزید اضافہ کیا۔ براڈ شیٹ کمپنی کے سربراہ جسٹس (ر) عظمت سعید نے ان تمام شخصیات کو قومی خزانے کے زیاں کا ذمہ دار قرار دیا ہے جو براڈ شیٹ اور اس کے نمائندوں کے ساتھ معاہدے کی تفصیلات طے کرنے اور معاہدے پر عملدرآمد کے ذمہ دار تھے۔ انہوں نے قانون دان احمر بلال صوفی‘ حسن ثاقب شیخ‘ غلام رسول‘ عبدالباسط کو اس معاملے میں ملوث قرار دیا۔ ان کی تحقیقات کے مطابق فاروق آدم نے ریاست کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ اس سلسلے میں سینئر قانون دان شریف الدین پیرزادہ کا براڈ شیٹ کے پے رول پر ہونا بھی سامنے آیا ہے۔ انکوائری کمیشن نے اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ دوران تحقیقات نیب کے سوا کسی ادارے نے ان سے تعاون نہیں کیا۔ افسر شاہی نے ہر ممکن طور پر اس انکوائری کی مزاحمت کی ، ریاست پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنے والے اعلیٰ سرکاری افسران کس کے کہنے پر اور کیوں براڈ شیٹ سکینڈل کی تحقیقات میں مزاحم ہورہے تھے ؟۔ اس تمام قضیئے کا افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ انکوائری کمیشن کے سربراہ نے بعض افراد کا نام لیے بغیر انہیں روکنے کی کوششوں کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔ براڈ شیٹ سکینڈل میں پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچا، پاکستان کے غریب عوام کی کمائی لٹائی گئی۔جن لوگوں کو ذمہ داری سے کام کرنا تھا وہ اپنا کام انجام دینے میں ناکام رہے۔ پوری دنیا میں جگ ہنسائی الگ ہوئی۔ ریاست کو چند عالمی فراڈیوں نے کس طرح لوٹا یہ شرمناک ہے۔ حکومت کو اس سلسلے میں پورا کیس نئے سرے سے دیکھنا ہوگا۔ تمام عالمی معاہدوں کا ازسرنو جائزہ لینا ضروری ہو گیا ہے کہ بین الاقوامی قوانین سے ہماری عدم واقفیت ہمیں کسی مزید نقصان سے دوچار نہ کردے، پاکستان پہلے ہی رکوڈک‘ پی آئی اے طیارہ ملائیشیا میں روکے جانے‘ کارکے رینٹل پاور جیسے معاملات میں نقصان اٹھا چکا ہے‘ یہ سلسلہ ہر صورت روکا جانا چاہئے۔
٭٭٭