کشمیریوں کیلئے آخری حد تک جانے کا اعلان!!!

0
210

وزیر اعظم نے مسئلہ کشمیر پر کشمیریوں کی حمایت میں آخری حد تک جانے کا اعلان کر کے مسلم امہ اور پاکستان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھنے والے کشمیریوں کا حوصلہ بڑھا دیا ہے۔ تین روز قبل آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے کشمیری عوام، پاکستان اور مسلم ممالک سے کشمیر کے لوگوں کی مدد کی اپیل کی تھی۔ وزیر اعظم عمران خان کا خطاب سید علی گیلانی کے خط کا جواب سمجھا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ وہ کشمیریوں کے سفیر کے طور پر کام کریں گے۔ انہوں نے بھارتی جبر اور ظلم کے سامنے سینہ سپر اہل کشمیر سے اظہار یکجہتی کے لیے تمام پاکستانیوں سے کہا کہ وہ جمعہ کے روز دوپہر بارہ بجے سے ساڑھے بارہ بجے تک سڑکوں پر آ جائیں۔ مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کے بعد بھارت نے چند اقدامات فوری طور پر کیے ہیں۔ جموں و کشمیر کی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں جتنے مقامی اہلکار تھے ان سب کو غیر مسلح کر دیا گیا ہے۔ کوئی شہری دو سے زیادہ افراد کا گروپ بنا کر گھر سے باہر نہیں آ سکتا۔ مخصوص علاقوں میں آنے جانے کے لیے پاس جاری کیے جا رہے ہیں۔ بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں نے تمام انتظامی امور بھی سنبھال رکھے ہیں۔ سری نگر کے سول سیکرٹریٹ پر سے ریاست کا پرچم اتار کر وہاں بھارت کا قومی پرچم لہرا دیا گیا ہے۔ 23روز گزرنے کے بعد بھی کشمیر میں کرفیو نافذ ہے۔ 10ہزار سے زاید نوجوانوں کو گرفتار کر کے دوسرے علاقوں کی جیلوں میں بھیج دیا گیا ہے۔ تلاشی کے نام پر فوج گھروں میں داخل ہو کر خواتین اور لڑکیوں سے بدتمیزی کر رہی ہے۔ انسانی حقوق کی متعدد عالمی تنظیمیں کشمیر کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔ چند روز قبل جینو سائیڈ واچ نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کی نسل کشی کی بات کی تھی۔ اب ہیومن رائٹس واچ نے کشمیریوں کو لاپتہ کرنے اور ان کے ماورائے عدالت قتل کی مذمت جاری کی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا میناکشی گنگولی کا کہنا ہے کہ کشمیریوں پر بھارتی فوج کا تشدد ایک معمول بن چکا ہے۔ کشمیر کے لوگوں کو بدترین پابندیوں کا سامنا ہے۔ پوری ریاست میں مواصلاتی نظام کو بند کر دیاگیا ہے جس سے کشمیر کا باقی دنیا سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ بھارت عالمی برادری کو تاثر دے رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات معمول پر ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ مختلف ممالک کے سربراہوں اور وزرائے خارجہ سے ہنگامی ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ ان ملاقاتوں میں فوجی جبر کے نتیجے میں ویران مقبوضہ کشمیر کو پرامن بتایا جاتا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے اس دروغ گوئی کا پردہ فاش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مقبوضہ وادی میں بلاناغہ لوگ بھارتی قبضے کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے متعدد اہم شخصیات اہل کشمیر سے اظہار یکجہتی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ عالمی شہرت یافتہ باکسر عامر خان لائن آف کنٹرول کا دورہ کر کے کشمیری بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اپنے عہد کے عظیم بیٹس مین جاوید میانداد نے کنٹرول لائن پر جانے کا اعلان کر دیا ہے۔ چند روز قبل ملک بھر سے صحافیوں کے نمائندوں نے کنٹرول لائن کا دورہ کیا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر اور آزاد کشمیر کو الگ کرنے والی ایل او سی پر پاکستانی و کشمیری شہریوں کی آمد مقبوضہ کشمیر کے بدنصیب بہن بھائیوں کو یقین دلاتی ہے کہ وہ دکھ کی اس گھڑی میں اکیلے نہیں اور اگر ضرورت پڑی تو مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں کی مدد کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے گریز نہیں کیا جائے گا۔ حالیہ دنوں لاہور میں واہگہ اور قصور میں گنڈا سنگھ کے مقام پر شام کی پرچم اترائی تقریبات میں جوش سے بھرے پاکستانیوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ سید علی گیلانی اپنے خط میں کشمیریوں کو منظم اور پرامن انداز میں مظاہروں کی تاکید کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کے تمام شہریوں کو جمعہ کے روز آدھے گھنٹے کے لیے سڑکوں پر نکلنے کا کہہ کر قوم کے جوش و ولولے کو اظہار کا موقع دیا ہے۔ اس طرح عالمی برادری کو یہ پیغام جاتا ہے کہ تنازع کشمیر کے دو اہم کردار کشمیری اور پاکستان پرامن اور جمہوری طرز پر عمل پیرا ہو کر تنازع کا حل چاہتے ہیں تا ہم یہ حتمی تاثر نہیں ہو سکتا۔ بھارت نے صورت حال میں بہتری کی کوشش نہ کی تو پرامن لوگوں کو قابض فوج کے خلاف مسلح مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے میں دیر نہ ہو گی۔ کروڑوں پاکستانی شہریوں کا ایک وقت میں کشمیریوں کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آنا ایک اہم واقعہ ہو گا۔ بین الاقوامی میڈیا اور عالمی برادری اس طرح کے پرامن احتجاج کو نظرانداز نہیں کر سکتی۔ وزیر اعظم عمران خان نے بعض مسلم ممالک کی مجبوریوں کا حوالہ دیتے ہوئے تنازع کشمیر اور کشمیریوں پر بھارت کے مظالم پر ان کی خاموشی کا دبے لفظوں میں گلا ضروری کیا مگر وہ پرامید ہیں کہ یہ ممالک جلد کشمیر کے معاملے میں پاکستان کے مو¿قف کی تائید کریں گے۔ یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ کوئی جنگ بین الاقوامی قوتوں کو ساتھ ملا کر نہیں لڑی جا سکتی۔ جنگ ہمیشہ اپنے زور بازو کا نتیجہ تسلیم کرتی ہے۔ بین الاقوامی برادری کو صلح، ثالثی اور امن کے قیام میں مدد فراہم کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔ پاکستان اتمام حجت کے تمام تقاضے پورے کر رہا ہے۔ امن کی کوششوں اور پرامن حل کی پیشکش کو اگر پذیرائی نہیں ملتی تو پھر پاکستانی قوم اپنے کشمیری بھائیوں کے شانہ بشانہ لڑائی کے لیے تیار ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here