امت مسلمہ میں سعودی عرب کی مرکزی حیثیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا اور پاکستان اس معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔میجر جنرل بابر افتخار نے پریس کانفرنس میں خطے کی صورت حال‘ بھارت کی جارحانہ پالیسیوں ‘مسئلہ کشمیر اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے انسداد ٹڈی دل‘ انسداد کورونا مہم اور دیگر شعبوں میں اس کی خدمات کا ذکر بھی کیا۔ چونکہ یہ سارے معاملات ایک طرح سے ریاست کی بین الاقوامی امور پر پوزیشن سے جڑے ہوئے ہیں اس لئے ان پر پاکستان کے موقف کو بسا اوقات اس طرح زیر بحث لایا جاتا ہے کہ پاکستان کے دوست غلط فہمی اور بدگمانی کا شکار ہوں۔ گزشتہ ہفتے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تنازع کشمیر پر او آئی سی سربراہ اجلاس نہ بلائے جانے کی بات کی۔ اس بیان سے دو روز قبل سعودی عرب نے پاکستان کو دیے گئے ادھار ایک ارب ڈالر واپس مانگ لئے‘ بعض رپورٹس میں ادھار تیل پر نئے سرے سے بات چیت کا ذکر بھی کیا گیا۔ شاہ محمود قریشی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اگر عرب دوستوں نے تنازع کشمیر پر او آئی سی کا اجلاس نہ بلایا تو پاکستان اپنے حامی مسلم ممالک کے ساتھ مل کر نیا اتحاد بنا سکتا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین گہرے برادرانہ تعلقات کی ایک تاریخ ہے۔ تاریخی تعلقات معاشی تعاون‘ اوورسیز پاکستانیوں کو ملازمت اور کاروبار کی سہولیات دینے اور دفاعی شعبے تک پھیلے ہوئے ہیں لہٰذا منفی پروپیگنڈہ کے بعد صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے پاکستان کو نئے اقدامات کی ضرورت تھی۔ پاکستان اور سعودی عرب عشروں تک مسلم امہ کے اتحاد کے لئے ایک ساتھ سرگرم رہے ہیں۔ پاکستان کو جب کبھی مالیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑا سعودی عرب نے ادھار تیل فراہم کر کے معاملے کی سنگینی کم کرنے میں مدد دی۔ اسی طرح پاکستان نے ہر موقع پر برملا کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج ارض مقدسہ کی حفاظت کے لئے دستیاب ہیں۔ اس پالیسی میں یہ احتیاط ضرور بروئے کار رکھی گئی کہ دو مسلم ممالک کے جھگڑے میں پاکستان نے کبھی کسی فریق کا ساتھ دینے کی بجائے مصالحت کار کے طور پر کردار ادا کرنے میں دلچسپی لی۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدہ تعلقات ناصرف مسلم امہ کو تقسیم اور کمزور کر رہے ہیں بلکہ اس تناﺅ کا فائدہ اٹھا کر اسلام دشمن قوتیں خطے میں اپنے قدم جما رہی ہیں۔یہ صورت حال پاکستان کے لئے اطمینان بخش نہیں کہ اس کے دو برادر مسلم ممالک اپنی طاقت کو باہمی جھگڑے کی نذر کر دیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب‘ایران اور امریکہ کے کہنے پر مصالحت کی کوشش شروع کی جس کا کسی حد تک مثبت نتیجہ برآمد ہونے لگا تھا۔ سعودی عرب کے لئے یمن کی صورت حال تشویش کا باعث ہے۔ آئے روز حوثی باغی سعودی علاقے پر کوئی گولہ‘ میزائل یا راکٹ پھینک کر جنگ کا ماحول بنا دیتے ہیں۔ پاکستان نے اگرچہ اپنی افواج یمن بھیجنے سے معذرت کر لی لیکن سعودی وزارت دفاع میں ہزاروں پاکستانی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ تین سال قبل سعودی عرب نے 34مسلم ممالک کی متحدہ فوج تشکیل دی تو پاکستان کے سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو اس فوج کا سربراہ مقرر کیا۔ پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ تزویرائی تعلقات افغان جہاد کے زمانے میں گہرے ہوئے‘ اس سے قبل شاہ فیصل اور ذوالفقار علی بھٹو کے ذاتی خوشگوار تعلقات کی وجہ سے لاکھوں پاکستانیوں کو سعودی عرب میں روزگار کی سہولیات میسر ہوئیں۔ سعودی عرب سے پاکستان کی شکایات کا معاملہ دو دوستوں کے باہمی معاملے کی حدود میں دیکھا جاتا تو بہتر تھا لیکن اس سارے قصے کو فوراً ایسے نئے بلاک کی تشکیل سے جوڑ جو سعودی مخالف بتایا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ چند ماہ قبل پاکستان‘ ملائشیا اور ترکی کے سربراہان نے کوالالمپور میں ایک ایسے اتحاد کی تشکیل کے لئے اجلاس رکھا جو ٹیکنالوجی‘ تجارت اور سائنس کے شعبوں میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامیں۔ اس وقت سعودی عرب نے پاکستان کو اجلاس میں شریک نہ ہونے کی اپیل کی۔ سعودی عرب اہم نہ ہوتا یا پاکستان کی نظر میں سعودی عرب کی بات رد کرنا آسان ہوتا تو وزیر اعظم عمران خان دورہ ملتوی نہ کرتے۔گزشتہ دنوں سعودی سفیر کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ملاقات ہوئی۔اس ملاقات کو آرمی چیف کے دورہ سعودی عرب کے تناظر میں دیکھنے کی بجائے نئے بلاک اور پاک سعودیہ مفروضہ کشیدگی کے حوالے سے دیکھا جا رہا ہے۔پاکستان مسلسل یہ موقف دہرا رہا ہے کہ وہ کسی مسلح تنازع کا فریق بننے کو تیار نہیں۔ پاکستان کو اپنے موقف کی حمایت میں ہمسایہ دوست ملک چین کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہے۔ خطے میں امن کے قیام اور تنازعات سے بچاﺅ کے لئے ضروری ہے کہ پورا خطہ تجارتی اور معاشی مواقع سے منسلک کر دیا جائے۔ چین ایران میں سرمایہ کاری کر رہا ہے‘ یہ سرمایہ کاری نیپال‘سری لنکا اور بنگلہ دیش میں بھی ہو رہی ہے۔ یقینا امریکہ کی موجودگی کسی خطے میں جنگ کے خطرات بڑھا دیتی ہے۔ پاکستان خود کو بدل رہا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہو گا کہ مسلم امہ کے وسائل سے دشمنوں کو طاقتور ہونے کا موقع نہ ملے۔ سیاسی قیادت کے بعد عسکری قیادت کا سعودی عرب سے رابطہ یقینا باہمی مفادات کی درست نشاندہی اور ان مفادات کے حصول کی خاطر مشترکہ کوششوں کو باور آور بنا سکتا ہے۔
٭٭٭