Ramzan Rana. Legal Analyst. M. A , LLB & LLM (USA
وطن عزیز پاکستان کو آج کئی خارجی محاذوں کا سامنا ہے، جس میں ملیشیا، ترک، ایران اتحاد، اسرائیل کو تسلیم کرنا اور بھارتی جاسوس کلبھوشن کی رہائی شامل ہے۔ اگرچہ کلبھوشن معاملے میں پاکستان میں مکمل پابندیاں عائد ہو چکی ہیں تاکہ پاکستانیوں کے قاتل اعظم احسان اللہ احسان کی طر ح کلبھوشن کو بھی چوری چھپے بھگادیا جائے جس کا پاکستانی قوم کو پتہ بھی نہ چل پائے۔ جاسوس کلبھوشن یادیو کو پاکستانی فوجی عدالت نے سزائے موت دی تھی جس کو بھارت نے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں چیلنج کر دیا تھا کہ کلبھوشن کو حق اپیل سے محروم رکھا گیا جس میں پاکستان کی قانونی اور آئینی عدالتوں میں جانے کا حق نہیں دیا گیا ہے جس پر پشاور ہائیکورٹ کے وہ چیف جسٹس وقار سیٹھ کام آگئے جنہوں نے جنرل مشرف کو مقدمہ غداری میں آئین شکنی پر سزائے موت دی تھی کہ ایسے نازک موقع پر جب آئی سی جے کلبھوشن کو رہا کرنے کا حکم دینے جا رہا تھا کہ پاکستانی حکومت نے پشاور ہائیکورٹ کا وہ فیصلہ جو چیف جسٹس وقار سیٹھ اور جسٹس خٹک نے دہشتگردی کے 74 مجرموں میں سے پچاس مجرموں کی رہائی کا فیصلہ دیا تھا جن کو فوجی عدالت نے سزائے موت سنائی تھی جس پر حکومت نے اپیل دائر کر رکھی ہے چنانچہ چیف جسٹس وقار سیٹھ کا یہ فیصلہ بین الاقوامی عدالت میں پیش کیا گیا کہ پاکستان میں قانون کے مطابق کام ہو رہا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو اعلیٰ عدالتوں میںچیلنج کرنے سے مجرموں کی رہائی ہو رہی ہے حالانکہ کلبھوشن کو اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کی رسائی نہیں دی گئی تھی جس کا جواز بھارت نے انٹرنیشنل کورٹ میں پیش کیا تھا مگر ورلڈ کورٹ نے پشاور ہائیکورٹ کے اس فیصلے کہ کلبھوشن کو رہا کرنے کی بجائے حکم دیا کہ کلبھوشن کو ڈیو پروسیس فراہم کیا جائے جس کو مد نظر رکھتے ہوئے آج وہی معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے جس میں کلبھوشن اپیل نہیں کر رہا ہے کیونکہ بھارت نے سعودی عرب سے کلبھوشن کو غیر مشروط چھڑانے کا تہیہ کرلیا ہے جس کیلئے سعودی عرب کو اسی طرح استعمال کیا جا رہا ہے جس طرح گزشتہ سال پاکستان پر حملہ آور بھارتی اور اسرائیلی پائلٹوں کو بغیر چُوں و چرا چھوڑنا پڑا تھا۔ دوسرا محاذ نیا مسلم اتحاد ملیشیا، ترکی اور ایران وغیرہ کا ہے جس کی سب سے پہلے حمایت کرنے والا عمران خان تھا جب مجوزہ اتحاد کے ملکوں نے کشمیر کی حمایت میں کانفرنس منعقد کی تو عمران خان بھاگ گیا جن کو سعودی عرب نے منع کر دیا تھا ،اب بھی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پہلے بھڑک ماری کہ اگر او آئی سی کشمیر کے معاملے میں نہیں بولے گی تو ہم نئے مسلم اتحاد میں شامل ہو جائینگے جس کے بعد سعودی عرب نے حکم دیا کہ پیسے کڈو، جس پر چین سے فوری ایک بلین مزید اُدھار لے کر سعودی عرب کو دیا گیا جو سعودی عرب نے تین ارب ڈالر بطور گرانٹ آئی ایم ایف کے قرضوں کی مد میں دے رکھے ہیں جس کے بعد دربانوں اور بلوانوں کی دھوڑیں لگ گئیں، پاکستانی آرمی چیف جنرل باجوہ بھاگے بھاگے سعودی عرب پہنچے، اب شاید معافی تلافی ہو رہی ہے جس کا ابھی تک اتا پتہ نہیں چل پایا ہے۔
تیسرا محاذ عربوں کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنا ہوگا جس کے سلسلے میں جنرل مشرف کے دور آمریت میں پیش رفت ہوئی تھی جو پاکستانی قوم کے خوف سے صہیونی منصوبہ کامیاب نہ ہوا تھا بعدازاں عمران خان کے پارلیمنٹیرین خاتون نے بھی پارلیمنٹ میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مسئلہ اُٹھایا جس کو بھی پارلیمنٹ اور عوام نے بُری طرح رد کر دیا اب پھر متحدہ عرب امارات نے مصر، اردون، قطر، بحرین کے بعد اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے جس کو سعودی عرب خفیہ طور پر تسلیم کر چکا ہے جو اب کسی وقت بھی کُھلم کُھلا اعلان کرے گا جس کے بعد پاکستان کو مجبور کیا جائےگا کہ وہ بھی اسرائیل کو تسلیم کرے جس کیلئے پاکستانی گماشتہ حکمران طبقہ اسرائیل کو مختلف حیلوں بہانوں سے تسلیم کر لے گا یہ جانتے ہوئے عرب لوگوں نے مسلمانوں کی خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے میں برطانوی سامراجیت کا ساتھ دیا تھا جن کو عرب ایک ملک کی بجائے درجن بھر عرب ملک بنا دیئے گئے جن پر برطانوی پٹھو بادشاہ، امیر اور سلطان حاکم بنا دیئے گئے تھے ،آج پھر عرب فلسطینیوں کو دھوکہ دے کر اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں جس کا مطلب قبلہ اول بیت المقدس پر صہیونی قبضہ قابل قبول قرار دیا جائےگا۔ وہ قدیم فلسطین ملک یہاں انبیائے اکرام آرام فرما رہے ہیں وہ نبیوں کے قاتل صہیونیت کے زیر سایہ رہے گا جس کیلئے صلاح الدین ایوبی کوانتظار کرنا پڑے گا جو دوبارہ یروشلم بیت المقدس کو آزاد کرائے گا جو شاید پھر عراق سے آئے گا اور فلسطینیوں کی جان چھڑائے گا۔
تاہم پاکستان کے سامنے درپیش خارجی محاذوں کا مطلب ہے ملک کی خارجہ پالیسی حسب معمول یرغمال بنی ہوئی ہے جس کا آغاز 1951ءمیں ہوا تھا جب پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان نے خارجہ پالیسی کوامریکہ کے حوالے کر دیا تھا جس کا تسلسل آج تک قائم ہے لہٰذا پاکستانی حکمرانوں نے جو بویا تھا وہ کاٹا جا رہا ہے کل بھی سیٹو، سینٹو، کے سامراجی معاہدوں میں شامل تھے بعد ازاں امریکی پرائی جنگوں افغان اور دہشتگردی کی جنگوں میں شریک ہو کر ملک کو جانی، مالی اور معاشی نقصان پہنچایا تھا۔ آج بھی اسی طرح خارجی محاذوں میں ملک کو نقصان پہنچایا جائے گا جس کی ذمہ د ار پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ہے جس نے پاکستان کو خارجہ پالیسیوں پر قبضہ کر رکھا ہے جس کی وجہ سے خارجہ پالیسی آزاد اور خود مختار نہیں ہے موجودہ حالات میں بھی پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہو پا رہی ہے یا عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے جس میں پارلیمنٹ کو اوور تھرو کرنے کیلئے صدارتی آرڈیننس کا سہارا لیا جا رہا ہے جس کا بے دریغ استعمال اب کلبھوشن اور اسرائیل کو تسلیم کرنے میں ہوگا جس میں عوام کی پارلیمنٹ کو پیروں تلے روندا جائےگا۔ بہرحال اسرائیل کو تسلیم کرنا فلسطینیوں اور کشمیریوں کی آزادی سے منہ موڑنے کے مترادف ہے جس سے عرب دنیا منہ پھیر چکی ہے اب صرف عربوں کے گماشتہ حکمران باقی بچے ہیں جس میں پاکستان سر فہرست ہے لہٰذا فلسطینیوں اور کشمیریوں کو عربوں اور اربوں کے مالکان سے کوئی توقع نہ رکھنا ہوگی۔
٭٭٭