!!!آہ……فصاحت محی الدین مرحوم

0
229
شمیم سیّد
شمیم سیّد

صحافت کی دنیا کا ایک بڑا نام جس کے سامنے بڑے بڑے سیاستدان جواب دیتے ہوئے گھبراتے تھے دیکھنے میں تو وہ بہت ہی چھوٹے نظر آتے تھے لیکن صحافت کے اعتبار سے ایک بڑا نام تھا۔ آج یہ خبر تمام حلقوں میں پھیل گئی کہ فصاحت محی الدین اس دنیا سے کُوچ کر گئے۔ میں ان کے بارے میں کیا لکھوں میں نے ایسا بندہ نہیں دیکھا جس نے اپنے ماں باپ کی خدمت کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے گرین کارڈ کو داؤ پر لگا دیا اور واپس پاکستان چلا گیا۔ ہیوسٹن میں وہ جب آیا تو اس نے کامران جیلانی اور نجم شیخ کیساتھ مل کر پاکستان ٹائمز میں کام شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنی ذہانت اور قابلیت کی بنیاد پر پاکستانی حلقوں کے علاوہ امریکن حلقوں میں بھی اپنی شناخت بنا لی تھی۔ نہایت ہی خوش اخلاق انسان محبت کرنے والا اور اپنے پیشے کیساتھ انصاف کرنے والا شخص تھا۔ وہ ایک پیشہ ور اور کہنہ مشق صحافی تھا۔ اس کا اوڑھنا بچھونا صحافت تھا۔ وہ خبر سونگھ لیتا تھا اور برق رفتاری کے ساتھ انگریزی میں خبر بنانا اس کیلئے کھیل تھا اس کی دو اُنگلیاں کمپیوٹر پر جس تیز رفتاری سے چلتی تھیں جس پر ہمیں حیرت ہوتی تھی۔ کراچی کے علاقے ناظم آباد پاپوش نگر میں رہنے والا ہمارا پیارا دوست اور نامور صحافی فصاحت محی الدین پاکستان میں میڈیا کے بحران کے باعث ناگفتہ حالت کی نظر ہو کر چل بسا۔ پاکستان کی نیوز ایجنسی پی پی آئی اور جنگ گروپ کے انگریزی اخبار دی نیوز میں کئی دہائیوں کی ملازمت کے بعد اس نے امیگریشن ہو جانے کی وجہ سے ہیوسٹن کو اپنا مسکن بنایا یہاں اس کے بڑے بھائی اور والدین بھی قیام کرتے تھے۔ اس کے صحافی دوست کامران جیلانی نے جب نجم شیخ کیساتھ مل کر پاکستان ٹائمز شائع کیا تو وہ اس سے بطور ایڈیٹر منسلک ہو گیا۔ وہ اُردو لکھنا نہیں جانتا تھا وہ انگریزی زبان کا صحافی تھا اسے زبان پر عبور حاصل تھا اپنے اخلاق و اطوار کی وجہ سے اس نے ہیوسٹن میں اپنا مقام بنایا اور کمیونٹی کے سیاسی حلقے اس کو عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ہر تیسرے دن کسی نہ کسی پروگرام کی کوریج یا پاکستان ٹائمز کے دفتر میں ملاقات رہتی تھی جہاں متعدد دوست احباب جمع ہوتے تھے اور رونق لگی رہتی تھی۔ وہ اپنے کام سے کام رکھنے والا شخص تھا۔ پھر حالات نے کروٹ لی اور ہیوسٹن سمیت کمیونٹی اخبارات بھی مالی مسائل سے دوچار ہونے لگے تو اس نے اپنے والدین کی خدمت کی وجہ سے واپس پاکستان چلا گیا اس نے دوبارہ دی نیوز اخبار جوائن کر لیا لیکن پاکستان میں بھی میڈیا بحران گھرتا جا رہا تھا اور تنخواہوں میں تاخیر کے باعث صحافی مالی تنگدستی اور بیروزگاری کی عفریت میں پھنستے جا رہے تھے پھر وہ وقت آیا جب اخبارات اور چینلز میں کئی کئی ماہ تک تنخواہیں تاخیر کا شکار ہونے لگیں جس کے باعث صحافی برادری مالی تنگدستی کے ناقابل بیان کرب سے دوچار ہو گئی اور شاید اسی ہی کرب اور اذیت نے اسے ہائپر، ٹینشن اور بلڈپریشر کا مریض بنا دیا جس کی وجہ سے اُسے فالج کا حملہ ہوا اور وہ آغا خان اسپتال میں چند روز بستر علالت پر رہتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ کراچی تا ہیوسٹن تک اس کے دوستوں اور شناساؤں کو اس کی موت نے ناقابل یقین دُکھ سے دوچار کر دیا ہیوسٹن میں اس کا کامران جیلانی، نجم شیخ، محمد عمران عرف عمی، میاں نذیر، مسرور جاوید خان، مظفر صدیقی، خالد علی، لالہ گلزار خان، ممتاز خان، محمد بیگ اور غلام بمبئے والا کیساتھ دوستی اور محبت کا گہرا تعلق رہا۔ جبکہ اراکین کانگریس ایل گرین اور شیلا جیکسن لی سے اس کے گہرے مراسم رہے۔ فصاحت محی الدین بلا شبہ پاکستانی صحافت کا اثاثہ تھا وہ ایک نڈر صحافی تھا جس نے کراچی سے لے کر ہیوسٹن تک اپنی پیشہ وارانہ صحافت اور اپنی گرویدہ بنانے والی شخصیت کے گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ پچھلے دنوں اس کا ویزہ دوبارہ لگ گیا تھا وہ ہیوسٹن آنے والا تھا مگر اس کو کیا معلوم تھا کہ اس کا وقت پورا ہو چکا ہے۔ اس کی موت کراچی کی صحافی اور سیاسی برادری سمیت ہیوسٹن میں اس کے وسیع حلقہ احباب کو دل گرفتہ کر گئی رب پاک اس کی مغفرت فرمائے اور جنت میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے۔ آمین۔ مرحوم نے ایک بیٹی اور ایک بیوہ اپنے لواحقین میں چھوڑی ہے۔ پاکستان نیوز ان کے غم میں برابر کا شریک ہے۔ کامران جیلانی کا بھی شکریہ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here