بزرگان دین نے مجھے اِس سال بھی وہی نیک تلقین کی کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں آئندہ سال انشااللہ سحری صبح کے چھ بجے تک اور افطار شام کے چار بجے کر سکونگا، کامل دین کی یہ پیشگوئی میرے لئے کوئی نئی بات نہیں، گذشتہ سال بھی اُنہوں نے اِس سال کے ماہ صیام کیلئے کچھ ایسا ہی فرمان جاری کیا تھا اور میں یہ توقع لگائے بیٹھاتھا کہ اِس سال کا روزہ تو یوں چٹکی بجاتے ہی اپنے اختتام کو پہنچ جائیگا، افطار شام کے پانچ بجے اور سحری صبح کے چھ بجے. جیسے ماہ رمضان نہیں ایک عام دِن کی روٹین ہو، نہ ہی
16 گھنٹے کے ایک نہ ختم ہونے والے روزے کا گلہ، اور نہ ہی بھوک و پیاس کی آہ و زاری کہ ہائے اللہ میں تو ہوا دین اِسلام کیلئے قربان، مجھے تو پیاس لگ رہی ہے، مجھے تو ایسا معلوم ہورہا ہے کہ جیسے میرے پیٹ میں چوہا دوڑ رہا ہو.بہرکیف اِس سال کے ماہ رمضان کے ٹائم ٹیبل ملتے ہی میں نے اپنی مسجد کے امام صاحب کو کال کی، اور اُس ٹائم ٹیبل کے اندراج پر تشویش کا اظہار کیا،سب سے پہلے تو میں نے یہ عرض کیا کہ میں اِس ماہ کا چندہ دے چکا ہوں، اِسلئے میں مسلمانوں کی صف میں شامل ہوں اور پھر کہا کہ رمضان کے ٹائم ٹیبل میں تو ہمیشہ کچھ غلطیاں ہو ہی جاتیں ہیں، مثلا”کہیں روزہ کھولنے کا وقت دس منٹ قبل اور کہیں 15 منٹ بعد میں ہوتا ہے لیکن کہیں ایسی کوئی بات نہیں کہ آپ کی کی جب مرضی اُس وقت آپ روزہ توڑ سکتے ہیں اور اِسکے باوجود بھی اپنے آپ کو مجاہد اسلام ہونے کا دعوی کرسکتے ہیں لیکن حضور اعلی!میں آپ کی مسجد سے شائع ہونے والے ماہ رمضان کے ٹائم ٹیبل کا بنظر غائر جائزہ لے چکا ہوں ِ جس کے اوپر نیچے، دائیں بائیں نمازیوں کو مسجد کیلئے چندہ دینے کی ضرورت پر اصرار کیا گیا ہے، اور مسجد کے میگا پلان کے بارے میں بھی ایک نوٹ درج ہے کہ مسجد کے پانچ منزلہ تعمیر کا کام جس کے بارے میں، میں گذشتہ دس سال سے سن رہا ہوں، اور مسجد کے ساتھ اِسلامک یونیورسی کھولنے کا خواب جس کیلئے علماء دین ہر سال سعودی عرب کادورہ کرتے ہیں تاکہ وہاں کوئی شیخ اُن کے نرغے میں پھنس جائے اور اِس نیک کام کیلئے 50 ملین ڈالر کا نذرانہ پیش کردے لیکن اِن دنوں شیخ حضرات بھی بہت زیادہ ہوشیار ہوگئے ہیں، اور یہ عذر پیش کر رہے ہیں کہ اگر کسی کو اسلامی یونیورسٹی میں داخلہ لینا ہے تو وہ سعودی عرب چلا آئے۔ نیویارک میں رہ کر کوئی سچا مسلمان نہیں رہ سکتا ہے. اُسے کبھی نہ کبھی چڈی پہنی ہوئی گوری سے واسطہ پڑ سکتا ہے، اور اُس کے دین و دنیا دونوں پر جھاڑو پھر سکتے ہیں،مزید برآں میں نے اپنے تحفظات میں یہ بھی عرض کردیا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اِس سال بھی نمازیوں کے جوتا چوری ہونے سے بچانے کیلئے کوئی خاص انتظام کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے۔ گذشتہ سال تراویح کے نماز کے دوران کسی بدبخت شخص نے ہمارے ایک قیمتی اسنیکر کا صفایا کر دیا تھا، اور امام صاحب اظہار افسوس کے ساتھ ایک پرانی سلیپر میرے حوالے کردی تھی تاکہ میں اُسے پہن کر خراماں خراماں گھر چلا جاؤں. لہذا اُس دِن کے بعد میں نے تہیہہ کرلیا تھا کہ کبھی بھی مسجد قیمتی اسنیکر یا نیا جوتا پہن کرنہ جاؤنگا. یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ مسجد میں میرے جوتے یا اسنیکر کو دیکھ کر اپنا منھ موڑ لیتے ہیں،اِس ضمن میں ہماری گفت و شنید مسجد والوں سے برابر ہوتی رہیں ہیں، اور اُنہوں نے مجھے عندیہ دیا ہے کہ وہ ایسی کوئی کاروائی نہیں کر سکتے ہیں جس سے مسجد سے جوتا چوری کرنے والوں کی حوصلہ فرسائی ہو، اور وہ مسجد آنا مکملا”بند کردے. مسجد کمیٹی کے لوگوں نے مجھے بتایا کہ مسجد خد ا کا گھر ہوتی ہے، جس کا دروازہ کسی کیلئے بھی بند نہیں کیا جاسکتا، چاہے وہ جوتا چور ہو یا کوئی لاٹ صاحب،بہرکیف امام صاحب ٹائم ٹیبل سے لے کر جوتا چوری ہونے کے تدارک کے بارے میں میرے تحفظات کو انتہائی صبر وتحمل سے سنا اور انتہائی پرخلوص انداز میں جواب دیا کہ میری جو بھی شکایتیں ہیں مسجد کمیٹی والے اُنہیں ایک طویل عرصے سے دور کرنے کیلئے کوشاں ہیں اور اُنہیں اِس سال تو نہیں لیکن آئندہ سال یقینا دور کر دی جائینگی۔ اُنہوں نے اشارتا”کہا کہ ہوسکتا ہے کہ اِس سال کسی کا جوتا چوری نہ ہو کیونکہ جو پولیس والے کورونا وائرس سے تدارک کی نگرانی کیلئے مسجد آئینگے، اُنہیں نمازیوں کے جوتے کی حفاظت کیلئے بھی کہا جائیگا۔
تاہم امام مسجد کی شگفتہ گفتگو سے میں بہت متاثر ہوا، اور سوچنے لگا کہ یہ ہمارے بزرگان معاشرہ بچے اور نوجوانوں کو صراط مستقیم پر چلنے کیلئے کیا کیا صعوبتیں برداشت نہیں کرتے، اُن کا ہاتھ دعاؤں کیلئے ہمیشہ اٹھا رہتا ہے، وہ شفقت سے سروں کو سہلاتے ہوے اللہ تعالی سے دعا گو ہوتے ہیں، اور سبھوں کو نیک راہوں پر چلنے اور اُن کے درخشاں مستقبل کیلئے دردمندانہ اپیل کرتے ہیں حالانکہ اُنہیں یہ اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ یہ درخت جب اُگ کر کرخت ہوگا تو وہ نہ ہونگے یہی وجہ ہے کہ جب بھی میں کسی ایسے بزرگ سے ملتا ہوں تو تعظیم سے اپنا سر نیچے کر لیتا ہوں۔اِن ہی کے مخالف ہمارے معاشرے میں ایسے حضرات کی کمی نہیں جو ہماری کامیابیوں سے ہمیشہ حسد و جلن کرتے ہیں، جب ہم نیک راہوں پر چلنے کی سعی کرتے ہیں تو وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے، اور نیک کام صرف اُن کے حکم کی تابعداری کرنا ہوتا ہے، اُن کی کوشش صرف یہ ہوتی ہے کہ معاشرے میں مذہب، فرقہ اور مسلک کی بنیاد پر فسادبپا کریں تاکہ اُن کی مطلق العانیت کی جڑ مظبوط سے مظبوط تر ہو سکے۔