!!!دین اور روایت

0
147
رعنا کوثر
رعنا کوثر

اگر کسی ملک کی روایات اور کھانے بہت زیادہ اس کے ساتھ جڑے ہوئے ہوتے ہیں تو وہ ان کو کبھی نہیں بھولتا اور ایک ملک سے دوسرے ملک بھی اگر چلا جائے اس کا رہن سہن تو بدل جاتا ہے۔مگر اس کے منہ کا ذائقہ اس کی آنے والی نسلوں میں بھی منتقل ہوتا رہتا ہے۔اب یہی دیکھئے کے پاکستان سے امریکہ آئے لوگوں کو سالوں ہوگئے۔بچے پیدا ہو کر بڑے ہوگئے ان کے اپنے بچے ہوگئے مگر کھانوں کی لذت کا اہتمام اسی طرح کیا جاتا ہے جیسے کے وطن عزیز میں تھابلکہ یہاں آکر کچھ زیادہ ہی پکوان پکنے لگے ہیں،جب تک وباء نہیں پھیلی تھی اکثر گھرانوں میں دعوتوں کا لامتناہی سلسلہ پھیلا رہتا اور اس میں سارے روایتی کھانے ہوتے بریانی، حلیم، نہاری اور مختلف انواع واقسام کے کھانے ہوتے۔رمضان کا مہینہ آتے ہی ہر گھر اور ہر مسجد کی رونق دوبالا ہوجاتی۔مساجد میں ہوٹلوں سے کھانے پک کر آتے مگر زیادہ تر کھانے بریانی اور قورمے پر مشتمل ہوتے حتٰی کے عربی اور دوسری قوموں کی مسجدوں میں بھی کبھی کبھی بریانی اور سمو سے کا اہتمام ہوتا۔
ہمارے گھر کے سامنے ایک مسجد بنی جوکے مصری عربی مولانا صاحب چلاتے ہیں جہاں مختلف ملکوں کے لوگ رمضان میں ضرور آتے ہیں، مولوی صاحب کو کھلانے پلانے کا بے حد شوق تھا وہ اپنے ہاتھ سے کھانے بناتے اور ایک دفعہ ہم سے بھی ضرور فرمائش ہوتی کے بریانی بنائی جائے جو تمام لوگوں کی پسندیدہ ہوتی بلکہ مولوی صاحب تعریف بھی کرتے ان کے الفاظ میں یور برانی از نمبرون اب وہ مسجد کی اور علاقے میں چلی گئی ہے۔مگر سب بریانی ضرور یاد کرتے ہیں۔اب جب کے وباء کا زمانہ ہے لوگ اپنے گھروں میں ہی افطاری بنا رہے ہیں۔دہی بڑھے، پکوڑے، سموسے ہر چیز بنائی جاتی ہے۔جب کے اکثر گھرانوں میں یہ بھی کہا جاتا ہے کے صحت مند کھانے کھائے جائیں،لمبے روزے ہیں، لہٰذا بہت سارے گھرانے پکوڑے وغیرہ نہیں بناتے مگر پلاؤ، کوفتے وغیرہ ضرور بنتے ہیں۔چند دن انگریزی کھانوں پر بھی آجاتے ہیں جیسے کے سلاد، سوپ، بیک چکن مگر ہسنتے ہیں۔ایک دن ضرور کچھ نہ کچھ دیسی چیز ضرور بنتی ہے۔یہاں پیدا ہونے والے بچے بھی پکوڑوں کو نہیں بھولے ہیں بلکہ اکثر تو بنانا بھی جانتے ہیں۔روح افزا تک کا سب کو ذائقہ ہے۔جب رمضان میں آپ کسی کے گھر جائیں گے تو وہ لوگ بھی جو یہاں آکر رہن سہن کے معاملے میں بدل گئے ہیں۔ان کے گھر کا دستر خوان ہمارے پکوان سے سجا ہوگااور یوں یہ بات دل کو لگتی ہے کے ہم ہمارے کھانوں کے بارے میں جتنی بھی باتیں کر لی جائیں کے یہ صحت مند نہیں ہوتے۔نمک مرچ سے بھرے ہوتے ہیں۔منہ کا ذائقہ ان سے ہی ہے۔ہمارے کھانے اتنے اعلیٰ ہوتے ہیں کے جن گھروں میں بہوئیں یا داماد دوسرے ملکوں کے بھی ہیں وہ بھی پکوان کھانوں کو سیکھ لیتے ہیں خاص طور سے بریانی اور رمضان میں پکوڑے یہاں کی خاص ڈش بن چکی ہے جو ہر کوئی سیکھنا چاہتا ہے۔
اس کا سارا کریڈٹ ہمارے ملک کے ان تمام لوگوں کو جاتا ہے جو یہاں آکر ان مشکل کھانوں کو محنت اور مہارت سے بناتے رہے اور اپنی نسلوں کو اس کا عادی بنایا اب وہ بھی چاہے جتنے بدل جائیں ان کھانوں کو نہیں چھوڑنا چاہتے۔
رمضان المبارک کے مہینے میں ہم سب شام کو روزہ کھولنے کا اہتمام کرتے ہیں تاکے دن بھر کی بھوک پیاس بجھائی جاسکے اور مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کے ہماری نئی نسل بھی جو یہاں پیدا ہوئی نہ صرف روزوں کا اہتمام بہت طریقے سے کرتی ہے بلکہ ان کے دستر خوان پر افطار کے وقت ہماری افطاری بھی سجی ہوتی ہے گویا کے دین کے ساتھ روایت بھی چل رہی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here