اس وقت جب یہ سطور لکھنے بیٹھا ہوں میرے ذہن میں منیر نیازی کا مصرعہ، میں ایک دریا سے پار اترا تو میں نے دیکھا، اک اور دریا کا سامنا تھا“، کچھ یہی حال اس وقت موجودہ حکومت اور وزیراعظم عمران خان کا نظر آتا ہے کہ ایک مرحلے سے نکلتے ہیں تو دوسرا معاملہ سر اُٹھائے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ اگست 2018ء سے اپریل 2021ء آگیا، مسائل و مشکلات کا یہ سلسلہ تھمنے میں ہی نہیں آرہا۔ ایک کے بعد ایک کوئی نہ کوئی آزمائش کسی نہ کسی حوالے سے کپتان کیلئے کھڑی ہوتی ہے۔ اس سلسلہئ بحران کی اصل وجہ اندرونی طور پر جہاں مخالف شکست خوردہ و کرپٹ سیاسی اشرافیہ کا طرز عمل ہے وہیں بین الاقوامی سیاسی منظر نامہ میں بدلتے ہوئے محرکات و معاشی برتری کیلئے محاذ آرائی کے علاوہ بھارت کی ازلی پاکستان دشمنی اور مودی سرکار کا پاکستان مخالف سازشی ایجنڈا تو ہے ہی، لیکن اس کیساتھ کچھ اندرون خانہ اپنوں کی خامہ فرسائیاں بھی ہیں۔ نتیجتاً کپتان کو مسلسل بحران در بحران کا سامنا ہی کرنا پڑ رہا ہے۔
مہنگائی، بیروزگاری، مخالفین کے سیاسی ہتھکنڈوں اور حکومت گرانے کیلئے پے درپے سازشوں کے طوفانوں کیساتھ کرونا کی قدرتی آفت سے نپٹنے کے مشکل ترین حالات کے بھنور میں گھرے کپتان کو اس وقت جس شدید مسئلے کا سامنا ہے اس کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ اس سے عہدہ براء ہونے کیلئے انتہائی تدبر، احتیاط اور اجتماعیت کی ضرورت ہے۔ گزشتہ ایک ہفتہ سے تحریک لبیک پاکستان یعنی ٹی ایل پی نے فرانس میں گستاخانہ خاکوں اور فرانسیسی صدر کی گستاخیئ رسولﷺ کو وجہ بنا کر ملک بھر کو آتش و آہن اور قتل و غارت میں غرق کر دیا ہے، وہ نہ ہی مذہب و اخلاق اور نہ ہی آئین پاکستان کے حوالے سے قابل قبول ہو سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں میں ملک بھر میں جو صورتحال رہی، سارے رسل و رسائل کے راستے منقطع کر دیئے گئے۔ ناکہ بندی کر کے رمضان میں عوام کا ناطقہ بند کر دیا گیا۔ سینکڑوں پولیس اہلکار، رینجرز اور مظاہرین زخمی و ہلاک ہوئے اور دنیابھر میں ان حالات پر پاکستان کی تشخیص منفی کے طور پر ڈسکس کی جاتی رہی۔ سوچنے کی بات ہے کہ مرنے والے بھی اور مارنے والے سب ہی حرمت رسولؐ کے داعی اور مسلمان ہی تھے۔
ہم نے اپنے پچھلے کالم میں عرض کیا تھا کہ تحریک لبیک کے اس اقدام میں بیرونی مخالف قوتوں کا ہاتھ ہو سکتا ہے ہنگاموں کے دوران مغربی اور بھارتی میڈیا نے جس طرح سے ان ہنگاموں کی پکچر پینٹ کی، اس سے یہ بات کُھل کر سامنے آگئی کہ بیرونی طاقتیں اس سازش میں شریک ہیں۔ بھارتی میڈیا نے تو اسے خانہ جنگی (سول وار) قرار دیتے ہوئے عمران خان کی حکومت جانے اور مارشل لاء کے نفاذ کا غلط پروپیگنڈہ کر کے دنیا میں پاکستان کا منفی تاثر پھیلانے کی رکیک حرکت کی۔ بات یہیں تک نہ رہی بلکہ گھر کو آگ لگانے میں گھر کے چراغ عمران مخالف سیاسی ایلیمنٹ بھی پیچھے نہ رہے۔ نواز لیگ کے ایک میونسپل کونسلر کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی جس میں وہ مظاہرین کی پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں پر حملے کیلئے قیادت کر رہا تھا۔ سوشل میڈیا پر نواز لیگ و دیگر مخالفین کے ٹوئیٹ، اسٹیٹس حتیٰ کہ لندن، بھارت، فرانس و دیگر مغربی ممالک سے بھی سوشل میڈیا پر عمران و اسٹیبلشمنٹ مخالفت کا طوفان برپا رہا۔ مولانا ڈیزل نے بھی بُغض عمرانیہ میں ٹی ایل پی کی حمایت کر دی۔ اس شخص نے ماضی میں بھی تحریک لبیک کی کبھی حمایت نہیں کی تھی۔ اُدھر مفتی منیب الرحمن اپنے روئیت ہلال کی سبکدوشی کی کُدورت کے باعث عمران کی مخالفت میں میدان میں آگیا اور پہیہ جام و ہڑتال کا اعلان کر بیٹھا۔ عجیب بات یہ تھی کہ ایک جانب تو بھارتی و مغربی میڈیا منفی ابلاغ کر رہا تھا، دوسری طرف سوشل میڈیا پر عمران و اسٹیبلشمنٹ کیخلاف زہر اُگلا جا رہا تھا جبکہ حکومت اور پیمرا نے مین اسٹریم میڈیا پر اس واقعہ کے حوالے سے ابلاغ کی پابندی لگا دی تھی۔ خدا جانے یہ ناعاقبت اندیشی تھی یا جان بوجھ کر ایسا کیا گیا مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سوشل میڈیا اور مخالفوں کی ڈس انفارمیشن ملک میں اور ملک سے باہر انفارمیشن بن کر پھیلی اور صحافتی و قومی حوالے کی انفارمیشن کی فراہمی مسدود ہو گئی۔ ایک صحافی ہونے کے ناطے ہمارا استدلال ہے کہ قومی میڈیا صحافتی و اخلاقی ضوابط کی بہت سی پابندیوں کا ذمہ دار ہوتا ہے جبکہ سوشل میڈیا کی مادر پدر آزادی کی آڑ میں دشمن اپنا کھیل کھیل جاتے ہیں اور عوام کو قوم کو گمراہ کرتے ہیں۔
بہر حال ہمارے اس کالم کے لکھے جانے تک حالات میں کچھ بہتری نظر آئی ہے، حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان مسائلایت سامنے آئی ہے۔ وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں نہ صرف حرمت رسولﷺ کے حوالے سے مسلم اُمہ کے 58 ممالک کے اتحاد و یکساں بیانیہ کا عزم کا اظہار کیا ہے بلکہ یورپ و مغرب سے بھی گستاخی رسولﷺ کے ارتکاب کو سختی سے روکنے اور اسلاموفوبیا کے تدارک کا مطالبہ کیا ہے نیز اس حوالے سے پارلیمان میں تمام فریقین کے اتفاق سے متفقہ لائحہ عمل مرتب کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ ہمیں یہاں پھر منیر نیازی کا ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں، یاد آرہا ہے۔ کپتان کی حکومت کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ بوجہ ناتجربہ کاری، جوش و ولولہ یا جلد بازی فیصلے کر لئے جاتے ہیں یا کپتان کے وزیروں، مشیروں اور معاونین میں کچھ ایسے ہیں جو اپنے مفاداتی مقاصد، لا علمی یا شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کے چکر میں وہ اقدامات، اعلان یا بیانیئے کر جاتے ہیں جو وقتی طور پر تو کپتان کی خوشنودی یا وین وین لگتا ہے لیکن بعد میں گلے کا ہار بن جاتا ہے بلکہ بحران کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ کالم کی طوالت سے بچتے ہوئے جو بحران اس وقت کپتان کو درپیش ہیں مختصراً بیان کر دیتے ہیں جہانگیر ترین کے کیسز اور ہم خیال گروپ، شہباز شریف کی ضمانت میں شہباز گل کی عدلیہ کی زبردستی کی نیابت، شریفوں کی جائیداد پر شہزاد اکبر کی بے وقت کی راگنی، کابینہ میں جا بجا تبدیلیاں اور بجٹ سے ایک ماہ قبل نیا وزیر خزانہ، مہنگائی اور کووڈ کے بھوتوں سے نپٹنا تو اپنی جگہ بڑے بحران بنے ہوئے ہیں ہم کپتان کے چاہنے والے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کپتان کم از کم خود رو بحرانوں سے ضرور بچیں اور اپنے اطراف پر نظر رکھیں،بصورت دیگر اگلے 2برس بھی بحرانوں کی نذر ہوجائے گئے۔جو پی ٹی آئی کی مقبولیت کو مختصر کرنے اور آئندہ الیکشن میں کامیابی کی مشکل کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔
٭٭٭