مسلمانوں کابائیڈن کے افطار ڈنر کا بائیکاٹ

0
58

نیویارک (پاکستان نیوز) صدر بائیڈن کی جانب سے اسرائیل کی مسلسل حمایت، ہتھیاروں کی بلا روک ٹوک فراہمی نے امریکہ بھر کے مسلمانوں ، تنظیموں، امدادی گروپس کو شدید اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے ، نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ امریکہ میں مقیم مسلم کمیونٹی،رہنمائوں نے وائٹ ہائوس کی جانب سے منعقدہ افطار ڈنر کا مکمل طور پر بائیکاٹ کر دیا ہے جس کے بعد وائٹ ہائوس کی جانب سے افطار ڈنر کی تقریب کو منسوخ کر دیا گیا ہے ، مسلم کمیونٹی کی جانب سے سب سے پہلے ایسے سیاسی رہنمائوں کی تقاریب کا بائیکاٹ کیا گیا تھا جوکہ فلسطین میں جنگ بندی کے حق میں نہیںتھے جبکہ اسرائیل کیہ دفاعی تعاون کیلئے کوشاں تھے، جب مسلم کمیونٹی نے ہیوسٹن کے میئر برینڈن جانسن کے اعزاز میںتقریب منعقد کی تو مسلم کمیونٹی کی اکثریت نے اس کا بائیکاٹ کیا کیونکہ ہیوسٹن میئر اسرائیل کے حامی تھے، اس بائیکاٹ کے بعد مسلم کمیونٹی نے آئندہ کسی ایسے رہنما کے اعزاز میں تقریب منعقد نہیں کی جوکہ اسرائیل کا حامی ہو،اس کے بعد دوسرا سلسلہ ایسے رہنمائوں کی جانب سے افطار پارٹیوں کے بائیکاٹ کے طور پر شروع ہوا جوکہ مختلف شہروں سے ہوتا ہوا وائٹ ہائوس تک جاپہنچا ہے، جہاں مسلم کمیونٹی نے وائٹ ہائوس میں ہونے والی سال کی سب سے بڑی افطار پارٹی کو ”بائے بائے” کہہ دیا ہے۔ ہیوسٹن کے میئر جان وٹ مائیرکی تقریر کے دوران عرب مسلمانوں کی جانب سے پر جوش احتجاج کیا گیا،شدید نعرے بازی بھی دیکھنے میں آئی، امریکہ بھر کے میڈیا پر اس کی کوریج کی گئی،شکاگو میں میئر برینڈن جانسن کی جانب سے غزہ کے شہیدوں اور اسرائیلی مظالم کی مذمت کرنے کیلئے پر امن احتجاج کیا گیا،ہزاروں مسلمانوں نے وائٹ ہاؤس کے سامنے غزہ شہیدوںکی غائبانہ نمازجنازہ ادا کی،قطری نشریاتی ادارہ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائٹ ہاؤس ذرائع نے بتایا کہ مسلم رہنماؤں کی جانب سے افطار ڈنر کے بائیکاٹ کے بعد وائٹ ہاؤس نے تقریب منسوخ کردی ہے۔کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈورڈ احمد مچل نے بتایا کہ تقریب اس لیے منسوخ کی گئی کیونکہ لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، بائیکاٹ کی فہرست میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے ابتدائی طور پر رضامندی ظاہر کی تھی۔انہوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ ‘امریکی مسلم کمیونٹی نے واضح کر دیا تھا کہ ہمارے لیے وائٹ ہاؤس کے ساتھ افطار کرنا ناقابل قبول ہو گا جو غزہ میں فلسطینی عوام کو قتل کرنے کے اسرائیلی حکومت کے اقدامات کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ناقدین نے خبردار کیا ہے کہ مسلم رہنماؤں میں غم و غصہ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں بائیڈن کے انتخابی امکانات کے لیے ممکنہ طور پر خطرہ بن سکتا ہے۔یاد رہے کہ یکم اپریل کو شائع امریکی نشریاتی ادارے ”سی این این” کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس نے مسلم کمیونٹی کے لیے افطار ڈنر کے لیے امریکی مسلم رہنماؤں کو دعوت نامے جاری کیے تھے۔فلوریڈا میں مقیم ایک مسلم ایڈووکیسی گروپ ایمگیج نے کہا کہ انہیں اور دیگر مسلم امریکی نمائندوں کو صدر، نائب صدر اور ٹیم کے سینئر ارکان کے ساتھ ملاقات کی دعوت موصول ہوئی تھی لیکن ہم نے شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز میں گورنمنٹ افیئر ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر رابرٹ میکاؤ نے ڈان کو بتایا کہ کئی امریکی مسلم تنظیمیں اپنی طرف سے بائیڈن انتظامیہ کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کے لیے وائٹ ہاؤس کے ارد گرد افطار ڈنر کا اہتمام کر رہی ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مسلم رہنماؤں کی جانب سے افطار ڈنر کے بائیکاٹ کے بعد اب صرف کچھ مسلم رہنما جو بائیڈن سے ملاقات کریں گے۔وائٹ ہاؤس کی ترجمان کرائن جین پیئر نے تصدیق کی کہ بائیڈن اور ان کی نائب صدر کملا ہیرس منگل کو مسلم کمیونٹی رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔جب ان سے مسلم کمیونٹی کی جانب سے افطار میں یہ شرکت نہ کرنے کی وجہ پوچھی گئی تو جین پیئر نے کہا کہ مسلم کمیونٹی نے افطار ڈنر کے بجائے ملاقات کی درخواست کی تھی۔کئی مسلم امریکی کارکنوں نے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک اور بے معنی ملاقات صرف تصاویر کے لیے ہو گی، مسلم کمیونٹی گزشتہ 6 ماہ سے اپنا موقف پہلے ہی واضح کر چکی ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اگر بائیڈن واقعی مسلم امریکی کمیونٹی کی پرواہ کرتے ہیں تو وہ اسرائیل کی حمایت جاری رکھے بغیر ان کے خدشات کو دور کرے۔واضح رہے کہ پچھلے سال وائٹ ہاؤس نے افطار ڈنر کی میزبانی نہ کرنے کا انتخاب کیا لیکن عید کے استقبال کے لیے تقریباً 350 مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ اس سال، رمضان غزہ میں جاری تنازعے کے ساتھ موافق ہے، جس کے نتیجے میں گزشتہ چھ ماہ میں 30,000 سے زیادہ ہلاکتیں رپورٹ ہوئی ہیں۔پچھلے سال وائٹ ہاؤس نے افطار ڈنر کی میزبانی نہیں کی تھی لیکن عید کے استقبال کے لیے تقریباً 350 مہمانوں کو مدعو کیا تھا، البتہ اس سال رمضان غزہ میں جاری تنازعات کے درمیان آیا ہے۔یاد رہے کہ 7 اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 32 ہزار 916 فلسطینی شہید اور 75,494 زخمی ہو چکے ہیں، جب کہ حماس کے 7 اکتوبر کے حملے میں اسرائیل میں مرنے والوں کی تعداد 1,139 ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here