جامعہ کراچی ، فلکیاتی مشاہدات و تجربات کی رسد گاہ آج فعال ہوگی

0
242

کراچی:

5سال تک غیر فعال رہنے کے بعد جامعہ کراچی کی رسد گاہ Observatory انسان کے چاند پر رکھے گئے پہلے قدم کی50 ویں سالگرہ کے موقع پر فلکیاتی مشاہدات وتجربات کے لیے آج پیرکودوبارہ فعال ہوجائے گی اور16انچ کی نئی اورجدیدترین کمپیوٹرائزڈٹیلی اسکوپ کے ساتھ جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف پلانیٹری اینڈآسٹروفزکس کے طلبہ و طالبات اب مستقل بنیاد پرفلکیاتی مشاہدات کرسکیں گے۔

واضح رہے کہ مسلسل 5برس تک بند رہنے کے بعد انسٹی ٹیوٹ آف پلانیٹری اینڈ آسٹروفزکس کی رسد گاہ تعمیر و مرمت اور نئی ٹیلی اسکوپ کی تنصیب کے بعد ایک ایسے وقت میں دوبارہ کھولی جارہی ہے جب ذرائع ابلاغ اور بالخصوص سائنسی دنیا میں 50 برس قبل اپالو11کے ذریعے انسان کے چاند پر رکھے گئے پہلے قدم کی باتیں کی جارہی ہیں ۔

دوسری طرف جامعہ کراچی کی انتظامیہ اوراس کا مذکورہ انسٹی ٹیوٹ اس چاندسمیت تمام فلکیاتی مناظرکودیکھنے اورٹیلی اسکوپ کے ذریعے محفوظ کرنے کی تیاری کررہا ہے یادرہے کہ جامعہ کراچی کی پہاڑی پر 1967/68 میں قائم کی گئی رسد گاہ کی سپارکو  کی جانب سے تعمیر ومرمت اورتزئین وآرائش کی گئی ہے اور جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس اینڈ پلانیٹری ایسٹروفزکس کے ساتھ کیے گئے معاہدہ کے تحت رسد گاہ میں نصب کی گئی 16انچ کی کمپیوٹرائزڈ ٹیلی اسکوپ بھی سپارکوکی جانب سے ہی دی گئی ہے۔

 

پرانی ٹیلی اسکوپ کے لینس لگانے کافیصلہ نہیں ہوسکا

جامعہ کراچی میں نئی اورجدید ٹیلی اسکوپ کی تنصیب کے ساتھ رسدگاہ کو فعال کیا جارہا ہے تاہم پرانی اورنادرونایاب ٹیلی اسکوپ کی مکمل تنصیب یا اسے استعمال میں لانے کے حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ یااقدام نہیں کیا جاسکا ہے اس ٹیلی اسکوپ کا محض ڈھانچہ نصب کیاگیا ہے تاہم اس کے لینس ٹیلی اسکوپ کے ڈھانچے کے ساتھ جوڑے نہیں جاسکے ہیں۔

اس حوالے سے انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین ڈاکٹرجاوید اقبال کاکہنا تھاکہ پرانی ٹیلی اسکوپ نصب توکردی گئی ہے تاہم لینس لگاکردیکھا جائے گا کہ وہ’’ ورکنگ کنڈیشن‘‘ میں ہے یا نہیں ان کا کہنا تھاکہ محض پرانی ٹیلی اسکوپ کے لینس کو استعمال کرکے نئی ٹیلی اسکوپ بنائی جاسکتی ہے کیونکہ یہ ایک خاص قسم کالینس ہے ابھی اس پر سوچ بچارکررہے ہیں یہ ایک ایجاد ہوتی۔

تاہم ان کاکہناتھاکہ سیکیورٹی کے مسائل ہیں پرانی ٹیلی اسکوپ ’’گنبد‘‘ سے باہر نصب ہے اگر اس کے لینس لگاکرچھوڑدیے گئے توچوری ہونے کابھی خدشہ ہوتاہے، یادرہے کہ پرانی ٹیلی اسکوپ معروف جرمن کمپنی Carl Zeiss کی پروڈکٹ تھی اس کمپنی کے لینس آج بھی دنیاکے مہنگے ترین لینسز میں شمار ہوتے ہیں یہ ٹیلی اسکوپ بھی جامعہ کراچی کو60کی دہائی میں تحفے میں دی گئی تھی۔

سپارکونے رسدگاہ کی تزئین کرکے ٹیلی اسکوپ فراہم کی

جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس اینڈ پلانیٹری آسٹروفزکس کے چیئرمین ڈاکٹرجاوید اقبال کے مطابق رسدگاہ کی تیاری پر60 لاکھ (6 ملین) روپے کی لاگت آئی ہے یہ اخراجات سپارکوکی جانب سے کیے گئے ہیں ’’ایکسپریس‘‘سے بات چیت کرتے ہوئے ان کاکہناتھاکہ 16 انچ کے لینس پر مشتمل کمپیوٹرائزڈ ٹیلی اسکوپ meade نامی کمپنی کی ہے جو نہ صرف بیک وقت 65 ہزارفلکیاتی austronical object کو محفوظ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ ٹیلی اسکوپ میں موجود ’’گوٹوٹیکنالوجی‘‘ کے ذریعے وہ متعلقہ austronical object کو فوری فوکس کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔

انھوں نے بتایاکہ کمپیوٹرپرجس objectکانام تحریرکریں گے ٹیلی اسکوپ اسی فلیکاتی objectکوفوکس کرے گی اور جس فلکیاتی منظرکا مشاہدہ کیا جائے گا وہ براہ راست کمپیوٹرمیں آجائے گی ڈاکٹرجاوید اقبال نے بتایاکہ ٹیلی اسکوپ سے پہلی sun imageبھی لی جاچکی ہے۔

پرانی ٹیلی اسکوپ قطب نمائی کی خاصیت کی حامل تھی
جرمن کمپنی Carl Zeiss کی پرانی ٹیلی اسکوپ ’’polar mounting {{‘‘قطب نمائی کی خاصیت کی حامل تھی جس کے تحت ٹیلی اسکوپ سے کسی فلکیاتی منظرکا مشاہدہ کرنے والاکسی سمت میں حرکت نہیں کرتا بلکہ ٹیلی اسکوپ مختلف سمت میں حرکت کرتی ہے ۔

رسدگاہ میں نئی ٹیلی اسکوپ کیتنصیب کی تقریب آج ہوگی
جامعہ کراچی جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس اینڈ پلانیٹری آسٹروفزکس کی رسدگاہ میں نئی ٹیلی اسکوپ کی تنصیب کے حوالے سے باقاعدہ تقریب آج کی شام منعقد کی جائے گی جس میں جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹرخالد عراقی کے ساتھ ساتھ سپارکوکے افسران اور ماہرین فلکیات اور سائنسدان شرکت کریں گے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here