اسلام آباد (پاکستان نیوز)پاکستانی عدلیہ نے نئی حکومت کے سامنے ایک نیا محاذ کھول دیا ہے ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نام خط میں سیاسی کیسوں میں خفیہ ایجنسیوں کے شرمناک کردارکی قلعی کھول کر رکھ دی ہے ، سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق مسلم لیگ ن کی حکومت ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کیخلاف نیا محاذ تیار کرتی ہے ، ن لیگ کی دو سے تین حکومتیں اسی چکر میں اقتدار سے بے دخل کی گئی تھیں لیکن اس مرتبہ سابقہ اسٹیبلشمنٹ کے زیر عتاب رہنے والے سابق وزیراعظم نواز شریف نے براہ راست سٹنگ آپریشن کرنے کی بجائے بھائی شہباز شریف کو فرنٹ فٹ پر رکھتے ہوئے عدلیہ کے کندھوں پر بندوق چلائی ہے ، جس کے ذریعے خفیہ ایجنسیوں کے کردار کو سامنے لایا گیا ہے ، ججوں کو اس حوالے سے خط لکھنے پر قائل کیا گیا تاکہ خفیہ ایجنسیوں کے سیاست میں کردار کو ختم کیا جا سکے جس کی بھینٹ کئی حکومتیں چڑھ چکی ہیں ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں نے خفیہ ایجنسیوں کے کارندوں کی حرکتوں سے تنگ آکر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نام خط میں الزامات کی بوچھاڑ کر دی ، ججوں نے اس خط میں یہ بھی کہا ہے کہ عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے ادارہ جاتی رسپانس کی ضرورت ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی طرف سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ دس مئی سنہ 2023 کو ہائیکورٹ ججز نے چیف جسٹس کو لیٹر لکھا کہ آئی ایس آئی آپریٹوز کی مداخلت پر توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔اس خط میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو انٹیلی جنس ادارے کی مداخلت کا بتانے پر 11 اکتوبر 2018 کوعہدے سے برطرف کیے جانے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔سپریم کورٹ نے 22 مارچ کے فیصلے میں جسٹس شوکت صدیقی کی برطرفی کو غلط قرار دیا اور انھیں ریٹائرڈ جج کہا۔اس خط میں جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے عائد کردہ الزامات کی تحقیقات ہونی چاہئیں، ہائیکورٹ ججز کا خط میں جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی کے تحقیقات کرانے کے موقف کی مکمل حمائت کا اعادہ کیا گیا۔خط میں کہا گیا کہ اگر عدلیہ کی آزادی میں مداخلت ہو رہی تھی تو عدلیہ کی آزادی کو ‘انڈرمائن’ کرنے والے کون تھے؟ اور ان کی معاونت کس نے کی؟ اس خط میں کہا گیا ہے سب کو جوابدہ کیا جائے تاکہ یہ عمل دُہرایا نا جا سکے۔ اس کے علاوہ ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں کوئی رہنمائی نہیں کہ ایسی صورتحال کو کیسے رپورٹ کریں۔خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس سلسلے میں تحقیقات کا سکوپ وسیع ہونا چاہئے کہ کہیں اب بھی تو اس طرح کی مداخلت جاری نہیں؟ اس خط میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ کہیں کیسز کی سماعت کے لیے مارکنگ اور بینچز کی تشکیل میں اب بھی تو مداخلت جاری نہیں؟ججز کی طرف سے لکھے گئے خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انکوائری ہونی چاہیے کہ کیا سیاسی کیسز میں عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہونا ریاستی پالیسی تو نہیں؟ ٹیریان وائٹ کیس کے قابل سماعت ہونے کے معاملے پر بینچ میں شامل ججز کا اختلاف سامنے آیا، اور پریذائیڈنگ جج نے اپنی رائے کا ڈرافٹ بھجوایا، جس سے دیگر دو ججز نے اختلاف کیا۔اس خط میں کہا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کے آپریٹوز نے پٹیشن ناقابل سماعت قرار دینے والے ججز پر دوستوں، رشتہ داروں کے ذریعے دباؤ ڈالا اور جج شدید ذہنی دباؤ کے باعث ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہو کر ہسپتال داخل ہوئے اور یہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور چیف جسٹس پاکستان کے علم میں لایا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا ان کی آئی ایس آئی کے ڈی جی سی سے بات ہو گئی ہے اور چیف جسٹس نے کہا یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ آئی ایس آئی کا کوئی آفیشل ہائیکورٹ کے کسی جج کو ‘اپروچ’ نہیں کرے گا، لیکن اس کے باوجود آئی ایس آئی کے آپریٹوز کی مداخلت جاری رہی۔ججز کی طرف سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ مئی 2023 میں ہائیکورٹ کے ایک جج کے برادر نسبتی کو مسلح افراد نے اغوا کیا اور 24 گھنٹے بعد چھوڑا۔خط میں جج کا نام تو نہیں لکھا گیا تاہم یہ کہا گیا ہے کہ جج کے بیٹے اور فیملی کے لوگوں کی سرویلنس کی گئی جس کے بعد برادر نسبتی کو اغوا کرنے کا فیصلہ ہوا۔خط میں الزام عائد کیا گیا کہ جج کے برادر نسبتی کو حراست کے دوران الیکٹرک شاک لگائے گئے اور وڈیو بیان ریکارڈ کرنے پر مجبور کیا گیا۔خط میں ایک ہائیکورٹ جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر کے استعفیٰ دینے پر دباؤ ڈالا گیا۔ اس خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک جج سرکاری گھر میں شفٹ ہوئے تو ان کے ڈرائنگ روم اور ماسٹر بیڈ روم میں کیمرے نصب تھے اورکیمرے کے ساتھ سم کارڈ بھی موجود تھا، جو آڈیو وڈیو ریکارڈنگ کسی جگہ ٹرانسمٹ کر رہا تھا۔خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جج کے ماسٹر بیڈ روم میں بھی کیمرا لگا تھا، جج اور اس کی فیملی کی پرائیویٹ وڈیو اور یو ایس بھی ریکور ہوئی۔ججز کی طرف سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ بارہ فروری 2024 کو پانچ ججز نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو فل کورٹ میٹنگ بلانے کے لیے لکھا جو تاحال نہیں بلائی گئی۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی جانب سے سنگین الزامات کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ اجلاس طلب کیا جس میں ان الزامات کا جائزہ لیا گیا جبکہ اس دوران ججز کو یقین دہائی کرائی گئی کہ یہ معاملہ اعلیٰ حکام کے سامنے اُٹھایا جائے گا۔