نیو یارک(پاکستان نیوز) پاکستان نے ایک بار پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں انفرادی رکن ممالک کے لیے اضافی مستقل نشستوں کے قیام کی مخالفت کی ہے۔ پاکستان نے کہا کہ غزہ میں جاری نسل کش جنگ نے ثابت کر دیا ہے کہ سلامتی کونسل بین الاقوامی امن و سلامتی کو درپیش خطرات کا مؤثر جواب دینے میں ناکام رہی ہے، جس کی بڑی وجہ مستقل ارکان کا فیصلہ کن اقدام پر متفق نہ ہونا ہے۔جنرل اسمبلی میں آج ایجنڈا آئٹم 122 “سلامتی کونسل کی رکنیت میں مساوی نمائندگی اور اضافہ” کے عنوان پر خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب، سفیر منیر اکرم نے کہا کہ نئے مستقل ارکان کا اضافہ سلامتی کونسل میں مفلوجی کو مزید گہرا کرے گا، اور یہ مسئلہ حل نہیں بلکہ مسئلہ کا حصہ ہے۔انھوں نے کہا کہ مستقل رکنیت، جو اقوام متحدہ کے قیام سے ہی ایک متنازع مسئلہ رہا ہے، اقوام متحدہ کے چارٹر میں دوسری جنگ عظیم کے فاتحین کی طرف سے شامل کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ آج کسی نئے “مراعات کے مرکز” کے قیام کا نہ کوئی جواز ہے اور نہ ہی کوئی مجبوری۔انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ملک جو سلامتی کونسل میں بار بار موجودگی چاہتا ہے، اسے جنرل اسمبلی کی طرف سے باقاعدہ انتخابات کے جمہوری عمل میں شامل ہونا چاہئے۔سفیر اکرم نے کہا کہ انٹر گورنمنٹل عمل(Intergovernmental Process) کے ذریعے سلامتی کونسل کی اصلاح کے پانچ باہمی مربوط نکات پر ہم آہنگی میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب دو سالہ غیر مستقل نشستوں میں توسیع پر اتفاق پایا جاتا ہے، تاہم نئے مستقل ارکان کے قیام پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہے۔اسی طرح ویٹو کے اختیار کو روکنے، محدود کرنے، معطل کرنے، نئے مستقل ارکان کو اس کا توسیعی اختیار دینے اور اس میں تاخیر کے حوالے سے مختلف تجاویز موجود ہیں۔افریقہ، لاطینی امریکہ، ایشیا، چھوٹے جزیرہ نما ترقی پذیر ممالک، عرب گروپ اور او آئی سی کو علاقائی نمائندگی کے حوالے سے تاریخی ناانصافی کا سامنا کرنا پڑا، جس سے یورپ کو فائدہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ علاقائی نقطہ نظر سلامتی کونسل کی اصلاح پر اتفاق رائے کے بہترین امکانات پیش کرتا ہے۔پاکستان کے اقوام متحدہ کے نمائندے نے کہا کہ 11 سے 12 غیر مستقل نشستوں کے اضافے کی تجویز نہ صرف چھوٹے اور درمیانے ریاستوں کی بہتر نمائندگی کو یقینی بنائے گی بلکہ پانچ مستقل ارکان کے بے جا اثر و رسوخ کو متوازن کرنے کے ساتھ ساتھ جوابدہی اور کونسل کے اندر جمہوریت کو فروغ دینے میں بھی مددگار ہوگی۔انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ دوسری طرف، چار یا چھ نئے مستقل ارکان کا اضافہ باقی 182 رکن ممالک کی نمائندگی کے امکانات کو کم کر دے گا اور سلامتی کونسل میں غیر جوابدہ حلقے کو بڑھا دے گا۔سفیر منیر اکرم نے کہا کہ یونائٹنگ فار کنسنسUniting for Consensus (یو ایف سی) گروپ، جس میں پاکستان ایک اہم رکن ہے، نے ایسی سلامتی کونسل کی اصلاح کے عزم کا اعادہ کیا ہے جو جامع اور علاقائی نمائندگی پر مبنی ہو۔انہوں نے کہا کہ یو ایف سی افریقہ کی طرف سے دو مستقل نشستوں کے مطالبے کی حمایت کرتا ہے جو براعظم کے لیے جوابدہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ یو ایف سی نے درمیانی طاقتوں کے لیے طویل مدت کی نشستوں کی تجویز بھی دی ہے، جو سائز اور امن کے فروغ جیسے عوامل پر مبنی ہیں، جس سے 20 سے زیادہ ممالک کو منصفانہ نمائندگی مل سکے گی۔سفیر اکرم نے اصلاح کے پانچ اہم نکات پر مکمل اور بامعنی بات چیت کی ضرورت پر زور دیا اور فوری فیصلے کے بجائے بامعنی مکالمے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے مصنوعی ڈیڈ لائنز اور یکطرفہ ووٹنگ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اراکین ممالک کو تقسیم کر سکتی ہیں اور پیش رفت میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ یو ایف سی ایک منصفانہ کونسل ماڈل چاہتا ہے جو تمام علاقائی امنگوں کا احترام کرتا ہو اور عالمی تعاون کو فروغ دیتا ہو۔ یو ایف سی تمام علاقائی اور بین الاقوامی گروپوں کی امنگوں کو ایک جامع اور منصفانہ سلامتی کونسل کی اصلاح میں شامل کرنے کے لیے بامعنی بات چیت کے لیے کھلا ہے۔