پاک امریکہ تعلقات اور ٹرمپ کا دوسرا دور!!!

0
17

امریکہ نے ہماری اسٹیبلشمنٹ کو خطے میں اپنے مفادات کے حصول کے لئے ایک فطری اتحادی سمجھا ہے۔ اکیسویں صدی کے ظہور کے بعد دہشت گردی کی جنگ میں جب ایک بار پھر دونوں ملک اتحادی بنے توامریکیوں کوجلد ہی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے بوجہ شکایات پیدا ہونے لگیں۔لندن میں بیٹھی بے نظیر بھٹو نے موقع غنیمت جانتے ہوئے امریکہ کو یقین دلایا کہ اگر انہیں حکومت بنانے کا موقع دیا جاتا ہے تو وہ نہ صرف یہ کہ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کاروائی کریں گی بلکہ پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے اثر ورسوخ کو سمیٹتے ہوئے بھارت کے ساتھ تعلقات کو بھی معمول پر لا ئیں گی ۔قدرت نے بے نظیر کو تو مہلت نہ دی، مگر ان کے شوہر ہمدردی کی لہر پر سوار اقتدار میں آگئے۔ یہی وہ دور تھا کہ جب اربوں ڈالر کی امداد کاکیری لوگر نامی بل ہاتھوں میں لئے ایک وفد ہمارے ہاں وارد ہوا۔موجودہ امریکی صدربائیڈن جس کے سرخیل تھے۔یہ پہلی بار نہیں تھا کہ امریکی امداد پاکستان آئی ہو، تاہم اس بار جو مختلف تھا وہ یہ تھا کہ ا ربوں ڈالرز ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی بجائے سویلین اداروں اور پیپل ٹو پیپل رابطے استوار کئے جانے کے نام پر غیر سرکاری تنظیموں میں براہِ راست بانٹے جانے تھے۔چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے اچانک کہیں سے سول سوسائٹی نمودار ہو گئی تو کہیںسینکڑوں این جی اوزبرساتی کھمبیوںکی طرح اُگنے لگیں۔ یو ایس ایڈ نامی امریکی ادارے کی اپنی ویب سائٹ کے مطابق لاکھوں امریکی ڈالرزنامعلوم میڈیا ہائوسز اور مخصوص میڈیا پرسنز میں بانٹے گئے۔ایک معروف وکلا تنظیم اور مخصوص یونیورسٹی اساتذہ کی بن آئی۔دوسری طرف حکومت اپنے تئیںوعدوں پر عمل درآمد کے لئے ہاتھ پائوں مارتی رہی۔ زرداری حکومت کا خاتمہ ہوا تو نواز حکومت قائم ہوگئی۔ روزِ اول سے ہی سلامتی کے اداروں کو دبائو میں رکھنے کے لئے کبھی مشرف پر غداری کے مقدمے کو تو کبھی مخصوص میڈیا ہائوسز کو استعمال کیا جانے لگا۔ اندرونی اور بیرونی ہلہ شیری کا ہی نتیجہ تھا کہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار کسی ملک کے کسی ٹی وی چینل پر اپنے ہی انٹیلیجنس چیف کو ایک قاتلانہ حملے کے لئے ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اس کی تصویر گھنٹوں نشر کی جاتی رہی۔ اس دوران پورا ملک دم سادھے دیکھتا رہا اور حکومت منہ دوسری طرف کر کے پڑی رہی۔ ایک بڑا انگریزی اخبار اپنی جگہ سویلین بالادستی کے پھریرے لہراتے ہوئے مخاصمت پر آمادہ تھا۔ چاروں طرف سے گری ہوئی اسٹیبلشمنٹ نے با لآخر پلٹ کر وار کرنے کا فیصلہ کیا تو مشرف دور میں نمو پانے والے الیکٹرانک میڈیااور معاشی آسودگی کے نتیجے میں ابھرنے والی مڈل کلاس کے حمایت یافتہ عمران خان سے زیادہ فطری حلیف انہیں دکھائی نہیں دیا ۔ایک شام ٹی وی کیمروں کے سامنے عمران خان نے روایتی سیاستدانوں کے گٹھ جوڑ کے ساتھ ساتھ اس کے حمایتی میڈیا ہائوس کے ما لک کو سرعام للکارا تو پاکستانی دم بخود رہ گئے۔ سال 2014 کا دھرنا ہوا ، ختم ہوا، اور پھر وہ دن بھی ہم نے دیکھے کہ جب ایک طرف کہیں ڈان لیکس کا غلغلہ اٹھتا تو کہیں پاناما لیکس زلزلہ برپا کرتیں۔دوسری طرف عالمی اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے کارفرما مقامی گٹھ جوڑ کی جانب سے خطے میں دہشت گردی، ہمسائیوں کے ساتھ بد امنی اور ملکی سیاست میں مداخلت کے لئے عسکری اسٹیبلشمنٹ کو معطون ٹھہرائے جانے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ عمران کی مقبولیت اور حالات کے جبر کے پیشِ نظرانتخابات میںاس کا راستہ روکا جانا تو ممکن نہ تھا،تاہم اب تو ایک زمانہ گواہی دیتا ہے کہ نئی حکومت قائم ہونے کے ایک برس بعد ہی اس کے خلاف زیرِ زمین سازشوں کا آغاز ہو گیا تھا۔اسی دوران ڈیپ سٹیٹ کی خواہش کے برعکس امریکہ میں ٹرمپ حکومت قائم ہو گئی۔ٹرمپ اور عمران خان کے درمیان ابتدائی تلخ ٹویٹس کے تبادلے کے بعد افغانستان سے امریکی انخلا کے معاملے پر ہم آہنگی کے آثار پیدا ہونے لگے۔ دونوں لیڈرز جنگوں کا خاتمہ چاہتے تھے۔ چنانچہ عالمی ڈیپ سٹیٹ کو دونوں کی پالیسیاں گوارا نہیں تھیں۔امریکی اسٹیبلشمنٹ کے حلیف سمجھے جانے والے جو بائیڈن نے حکومت سنبھالی تو اپنی نااہلی کی بنا پر افغانستان سے ذلت آمیز پسپائی ان کے حصے میں آئی۔ اس ذلت کا ملبہ عمران خان پر ڈالے جانے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ عمران خان کے چند بیانات نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا۔ یا د رہے کہ یہ وہی بائیڈن صاحب ہیں جو سویلین بالادستی کے نام پر سال 2008 میں اربوں ڈالزر کی امداد کا بل لے کر پاکستان وارد ہوئے تھے۔ چنانچہ وہ تمام مقامی کارندے کہ برسوں جن کی آبیاری کی گئی تھی ، اب پوری شدت کے ساتھ عمران حکومت کے خلاف کارفرما تھے۔ لندن اِن کی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا تھا۔ عمران کی امریکہ یاترا کے دوران، جنرل باجوہ کو الگ سے غیر معمولی پزیرائی ملی۔پھر گردوں نے وہ دن بھی دیکھا کہ سیاست میں دخل اندازی کے سوا ، تمام مطالبات کو ایک بدنامِ زمانہ ڈاکٹرائن میں متشکل کر دیا گیا۔ قرائن یہی بتاتے ہیں کہ سال2021 تک عمران حکومت کا تختہ الٹے جانے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔یہ وہی دور تھا کہ جب ہم جیسے قلم گھسیٹنے والے انہی صفحات پر التجا ئیں رقم کرتے رہے کہ بھاڑے کے چند ٹٹوئوں کے واویلے سے گھبرا کر اگر کسی حد تک غیر مقبول ہو جانے والی حکومت کا تختہ قبل ازوقت الٹ کر انہی پرانے چہروں کو واپس لایاگیا تو پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد آپ کے خلاف کھڑی ہو جائے گی۔ عوام مگر اس نئے بیانئے کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔نتیجے میں ایک لامتناعی کشمکش جاری ہے ۔ اس نا مراد کشمکش کے نتیجے میں چندریاستی اداروں کی چونچ ٹوٹ چکی ہے تو کئی ایک اپنی دم گنوا بیٹھے ہیں۔ یہاںسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ برسوں پہلے جو جنگ مبینہ طور پرمغربی طاقتوں کے ایما پراسٹیبلشمنٹ کو کمزور کر کے مغربی مفادات کی آبیاری کے لئے شروع کی گئی تھی، کیا وہ جنگ اپنے احداف سمیٹنے کے بعداب اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکی ہے؟ یا کہ نئی صف بندیوں کے ساتھ دوسرے ٹرمپ دور میں یہی جنگ کوئی نئی شکل اختیار کرے گی ؟ قرائن تو خوش آئند نہیں۔ دیکھئے ، وقت کی صراحی میں سے قطرہ قطرہ کیا حوادث ٹپکتے ہیں۔سال2006 کے آس پاس شروع ہونے والی کشمکش کو ففتھ جنریشن جنگ کا نام دے کر بتایا گیا تھا کہ غیر ملکی طاقتوں کے ایما پر چند خاندان اور کچھ ملک دشمن عناصر پاکستان کے عسکری اداروں کے درپے ہیں۔برسوں بعداب وہی تمام عناصر انہی اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ تمام تر توانائیاں اب محض یہ ثابت کرنے پر صرف ہو رہی ہیں کہ ماضی قریب میں جنہیں اپنا فطری اتحادی سمجھ کر اقتدار میں لایا گیا تھا، وہ صرف قومی اداروں کے نہیں، پوری ریاست کے دشمن ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here