دینی مدارس کا نصاب تعلیم !!!

0
77

اجتماعی معاملات میں علماء کرام سے رہنمائی نہ لئے جانے اور ان کے کردار کے محدود ہوجانے میں ایک حد تک مدارس دینیہ میں رائج نصاب تعلیم کا بھی حصہ ہے۔ مروجہ نصاب تعلیم کے ذریعے جو لوگ تیار ہو رہے ہیں، ان کا وژن بہت حد تک مکتبی اور ان کی اپروچ بہت ہی انفرادی ہے، ہمیں زیادہ قطعیت کے ساتھ معلوم نہیں کہ الجزائر، مصر، عراق اور دوسرے مسلم ممالک میں کون سا نصاب تعلیم رائج ہے اور وہاں دینی مدارس کا انداز اور اسٹیٹس کیا ہے؟ لیکن برصغیر پاک وہند میں جو ”درس نظامی”رائج ہے اس سے ہم کسی قدر واقف اور آگاہ ہیں، یہ نصاب تعلیم جس دور میں مرتب ہوا اس عہد کے رحجانات علمی اور ترجیحات تمدنی کے عین مطابق ہوسکتا ہے اس لئے کہ اس وقت تک دنیا ابھی ”گلوبل ویلج” نہیں بنی تھی، اس خطے کے لئے جو کچھ سیاست و ریاست اور مذہب ومعاشرت کے لئے درکار تھا وہ درس نظامی مہیا کر رہا تھا لیکن اب اسے پوری طرح نچوڑ بھی لیا جائے تو ایک آدھ لب تر ہوسکتا ہے کسی کی تشنگی نہیں بجھ سکتی ابتدائی فنی کتب کو چھوڑ کر(دین میں صرف ونحو اور منطق کی کتابیں شامل ہیں) منتہی کتب میں سے جو حصہ جس ترتیب سے پڑھایا جاتا ہے اس سے واعظ، جمعہ اور عیدین کے خطیب، روائتی مفتی اور فنی مدرس تو تیار ہوجاتے ہیں لیکن عمرانی مسائل سے کماحقہ واقفیت، مجہتدانہ بصیرت، شرعی احکام وقوانین کا عصری تغیرات اور ضروریات پر اطلاق وانطباق اور تمدنی مصالح سے آگہی جیسی خوبیاں اس نصاب تعلیم اور طرز تدریس سے قطعا پیدا نہیں ہوتیں، مثلا فقہ کی تدریس میں طہارت وضو، اکل وشرب کے آداب، نکاح، طلاق اور پہننے اوڑھنے کے مسائل تو پوری شرح وبسط اور تفصیل وتحقیق کے ساتھ پڑھاتے جاتے ہیں لیکن حدود دومعاملات، بین الاقوامی معاہدوں اور تعلقات، اصول جنگ اور صلح کا باب جہاں سے شروع ہوتا ہے وہاں سے سرسری گزر جانے پر قناعت کی جاتی ہے، بہت کم لوگ ان امور میں مہارت اور ممارست پیدا کر پاتے ہیں، آخر یہی فقہ تھی جو کسی دور میں مختلف ملکوں اور حکومتوں میں پبلک لاء کے طور پر نافذ رہی آئمہ فقہ نے اجتہادی بصیرت اور بڑی جگر کاوی کے ساتھ اخذواستنباط سے کام لیا اور دینی احکام کی تمام علتوں اور مصلحتوں کو خوب واضح کیا تب جاکر یہ فقہ ریاستی دستور العمل کا درجہ پانے میں کامیاب ہوئی اور ایک لحاظ سے فول پروف فقہی نظام رائج ہوا لیکن آج مشکل سے ایک آدھ آدمی ملے گا جو مجتہدانہ بصیرت اور تحقیقی شان کے ساتھ ان احکام کے قالب میں روح عصر سمونے کی صلاحیت سے بہرہ ورہو ورنہ جو کچھ کتابوں میں ہے اس کا ترجعہ کردینے کو علم کی معراج سمجھ لیا گیا ہے اور اس کی گردان کو فقہی بصیرت، یہی صورت دورہ حدیث کی ہے وہاں بھی زیادہ زورفنی مباحث پر رہتا ہے یا اپنے اپنے فقہی مسلک کی تائید پر اور اب تو حال یہ ہے کہ جو جو جس گروہ سے وابستہ ہے وہ ان متنازعہ مسائل کو حدیث کی روشنی میں صحیح ثابت کرنے کو علم الحدیث کہتا اور اپنے آپ کو ”محدث” قرار دیتا ہے حالانکہ حدیث حضورۖ کے قول مقدس اور عمل مبارک کا تاریخی ریکارڈ ہے اور الٰہی نظام اور نبویۖ معاشرت قائم کرنے کا سر چشمہ جب کہ آج دنیا جس فکری الحاد، عملی ارتداد، معاشرتی انحطاط، معاشی استحصال اور تمدنی زوال کا شکار ہے اسے دوبارہ صحت مند اور پاکیزہ اور منصفانہ بنانے کے لئے وہ تمام ضروریات اور تقاضے احادیث رسولۖ اور اسوہ پیغمبرۖ میں موجود ہیں جنہیں بروئے کار لانا وقت کی ڈیمانڈ ہے مگر یہ چیزیں اس طرز تدریس سے حاصل نہیں ہوسکتیں جو اس وقت مدارس میں رائج ہے۔ کچھ اس طرح کا سلوک مدارس کے اندر قرآن مجید کے ساتھ روا رکھا گیا ہے۔ وہ کتاب جو نصاب انقلاب ہے جو نور مبین ہے۔
٭٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here