اے خزاں تجھ کو کسی اور کے گھر جانا تھا !!!

0
141

ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو سپر پاور بنتے بنتے تو کئی سو سال لگ گئے لیکن پچھلی ربع صدی سے اس کے زوال کی علامات اتنی واضح ہیں کہ محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی کے مطابق کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔ دنیا بھر میں زرعی، صنعتی اور پھر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلابات لانے والے جفا کش امریکی، اب ناپید ہو چکے ہیں۔ اپنی جان جو کھوں میں ڈال کر دریاں اور پہاڑوں کے اندر سرنگیں بچھانے والے، طویل اور مضبوط پلوں کے معمار اور خلا کو تسخیر کر کے چاند پر کمندیں ڈالنے والے، اب پتہ نہیں کہاں غائب ہو چکے ہیں۔ ریسرچ اور ڈیویلپمنٹ کے چمپئین جو نئی نئی ایجادات کے موجد ہوتے ہوئے پوری دنیا کے بہترین دماغ، اپنے ملک میں جمع کر لیتے تھے، اب نہ جانے کہاں جاکر سو رہے ہیں۔ اپنے ہر کرنسی نوٹ پر In God we trust کندہ کرنے والا وہ امریکہ جس کی عدالتوں کا انصاف کبھی دنیا کیلئے مشعلِ راہ تھا، اب کسی گہرے غار میں محوِ خواب ہے۔ سب سے بڑا المیہ تو امریکہ کے اس مضبوط خاندانی نظام کا خاتمہ ہے جو انہیں دیگر مغربی ممالک سے ممتاز کرتا تھا۔ شاید اسی وجہ سے اب یہاں بنیادی اخلاقی اقدار بھی قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ اقبال کے مطابق تو شیطان بھی اب مغرب کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتا۔
گرچہ ہیں تیرے مرید افرنگ کے ساحر تمام
اب مجھے ان کی فراست پر نہیں ہے اعتبار
وہ یہودی فتنہ گر وہ روح مزدک کا بروز
ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جنوں سے تار تار
اس سب کے باوجود، ماضی کے امریکہ کی گزشتہ عظمت کی نشانیاں بھی ہر جگہ موجود ہیں۔ چند دن پہلے مجھے شکاگو میں قائم شدہ ڈیوان بنک کی سالہ سالگرہ کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ اس ادارہ کی بنیاد، میں ڈیوان اسٹریٹ کے چند کاروباری افراد نے ڈالی تھی۔ ان میں لانڈی فیملی کا حصہ سب سے زیادہ تھا۔ اس خاندان کے سربراہ کا تو اب انتقال ہو چکا ہے لیکن اس کی انتہائی معمر بیوہ خاتون سے ملاقات کا موقع ملا۔ وہ اب اکثریت حصص رکھنے کی وجہ سے اس بنک کی مالک کہلاتی ہے۔ اس مثالی ادارے کو سال سے چلانے والے اس خاندان نے اپنی اعلی اقدار برقرار رکھتے ہوئے، لاکھوں لوگوں کی زندگیوں پر مثبت اثرات مرتب کئے ہیں۔ اس وقت بھی تقریبا تین سو افراد اس کمیونٹی بنک میں کام کرتے ہیں۔ بقول ایک شاعر کے!
کرتا ہے جیسے مالی اپنے چمن کی خدمت
کرنا اسی طرح سے تم بھی وطن کی خدمت
سالگرہ کی تقریب میں بنک کی مالک بزرگ خاتون نے اپنی لکھی ہوئی تقریر کو ایک طرف رکھ کر، کے اس امریکہ کا ذکر کیا جب ایک طرف جنگِ عظیم دوم اختتام پذیر ہو رہی تھی اور دوسری جانب ان کی فیملی یہ کمیونٹی بنک قائم کر رہی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ جنگ کے دوران، کام کرنے کے قابل سارے مرد محاذِ جنگ پر چلے گئے تھے تو ان کے کرنے کے سارے کام گھریلو خواتین نے شروع کر دئیے تھے۔ زراعت اور صنعت کو چلانا انتہائی ضروری تھا تاکہ جنگ کی سپلائی لائن بھی برقرار رہے اور باقی ماندہ معیشت بھی چلتی رہے۔ انہوں نے خاص طور پر اسٹیل کی کمی کا ذکر کیا کہ جس کا استعمال ہتھیاروں کیلئے اتنا زیادہ ہوا کہ گھر اور دیگر عمارتیں بنانا محال ہو گیا۔ دیگر کاروبار بھی خاصا متاثر ہوا تو ان کا یہ بنک بہت سے کاروباری افراد کا سہارا بنا۔ ایک اچھے شاعر کی زبان میں،
انساں وہی بڑا ہے جس نے یہ راز جانا
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
معاشی، معاشرتی، اخلاقی اور خاندانی اقدار کے حامل اس لانڈی خاندان کے افراد نے ڈیوان بنک کو ایک بنک کی بجائے کمیونٹی کیلئے قائم ایک ادارے کے طور پر چلایا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ماڈرنائزیشن بھی کی۔ نئی ٹیکنالوجی کو بھی اپنایا لیکن اپنے ملازمین کو مشینوں سے نہیں بدلا۔ ڈیوان کے علاقے میں جب مسلم کمیونٹی نے قدم جمائے تو ڈیوان بنک نے Faith Base Financing کو بھی اپنے ادارے میں نمایاں جگہ دی۔ امریکہ کی بہت سی ریاستوں میں وہ گھروں اور کاروں کیلئے غیر سودی قرضے دیتے ہیں۔ ان کے بنک کا سب سے بڑا کسٹمر ہمارا ادارہ زکوا فانڈیشن آف امریکہ ہے جو اپنی بنکنگ غیر سودی طریقے سے کرتا ہے اور ڈیوان بنک اپنے اسلامی شریعت کے ماہرین کے مشورہ سے اسے ممکن بناتا ہے۔ بیدل حیدری کے اس خوبصورت مطلع کے مطابق، چاہتے تو ہم یہ ہیں کہ کاش یہ پورا بنک ہی اسلامی بن جائے اور سود سے پاک ہو جائے۔
یا تو ساحل سے کنارہ تمہیں کر جانا تھا
تشنہ لب تھے تو سمندر میں اتر جانا تھا
امریکہ کے سپر پاور والے نظام نے بلا شبہ عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے کیلئے بیحد کام کیا۔ اشرافیہ کی تعداد بہت کم رہی اور معیشت کو مضبوط رکھنے میں انہوں نے خاصی مدد بھی کی۔ اب یہی نظام افراط و تفریط کا شکار ہو کر ناکارہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ امریکہ میں نسل پرستی ختم ہوتے ہوتے تو بہت وقت لگا لیکن اب بہت تیزی کے ساتھ سفید فام بالادستی واپس آرہی ہے۔ خاندانی نظام کا تو اس قدر بیڑا غرق ہو گیا ہے کہ مرد و زن والی دو جنسوں والی معاشرت اب پانچ چھ اجناس کو قبول کرنے پر بڑی خوش نظر آتی ہے۔
اقبال نے ابلیس کے مشیر کے الفاظ میں سچ کہا تھا کہ!
میرے آقا وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے
جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدا
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here