2011ءمیں مبینہ طور پر اپنی جان بچانے کی کوشش میں لاہور کے2نوجوانوں کو قتل کرکے پاکستان میں سفارتی ہلچل پیدا کرنے والے امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس نے پیش آنے والے واقعے اور اپنے تجربے کو کتاب کی شکل میں پیش کردیا ۔”The Contractor“ نامی یادداشت میں امریکی خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی( سی آئی اے) کے سابق ملازم ریمنڈ ڈیوس نے پاکستان میں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی تفصیلات بیان کی ہیں ۔امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس نے اپنی نئی کتاب میں پاکستان میں گرفتاری سے رہائی تک کی داستان بیان کی ہے ۔ امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس نے اپنی نئی کتاب میں پاکستان میں گرفتاری سے رہائی تک کی داستان بیان کی ہے ۔ کتاب کے مندرجات کے مطابق ”مجھے کوٹ لکھپت جیل سے رہا کرانے میں جان کیری، نواز شریف، آصف زرداری، جنرل شجاع پاشا اور حسین حقانی نے مل کر مدد کی ۔ ڈی جی آئی ایس آئی کے علاوہ خفیہ ایجنسی کے کئی اہل کار میری رہائی کے وقت عدالت میں موجود تھے ۔ پاکستان سے رہائی کے لیے جنرل پاشا نے جتنی مدد کی شاید ہی کسی نے کی ہو ان کا کردار مرکزی تھا اسی وجہ سے انہیں توسیع دے دی گئی، رہائی کے وقت جنرل پاشا لاہور کی سیشن عدالت میںبھی موجود تھے اور ان کے ہاتھ میں موبائل فون تھا جس کے ذریعے وہ عدالت کی سماعت سے متعلق امریکی سفیر کیمرون منٹر کو اپ ڈیٹ کررہے تھے، مجھے رہا کرانے کے لیے نواز شریف اور زرداری ایک پیج پر تھے ، حسین حقانی مجھے چھڑانے کے لیے جان کیری کے ہمراہ پاکستان آیا تھا ۔ میری رہائی کے لیے جان کیری نے لاہور میں نواز شریف سے ملاقات کی تھی، میری رہائی کے لیے 23کروڑ روپے حکومت پاکستان نے خود ادا کیے تھے جو کہ بعد میں امریکی حکومت نے ادا کردئیے تھے ۔ دھمکیاں اور پیسے دے کر لواحقین کو راضی کیا ، مقتولین کے ورثا مجھے معاف کرنے کے لیے تیار نہیں تھے ، میری رہائی کے بعد جنرل پاشا کو مدت ملازمت میں توسیع مل گئی ، کتاب میں پاکستان کے شہر لاہور میں2011ءمیں پیش آنے والے واقعے کا بغور اور ذاتی جائزہ لیاگیا ۔جبکہ گرفتاری سمیت وہ واقعات جو ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لیے دونوں ممالک کے سفارت کاروں کی الٹ پلٹ سے پیدا ہوئے وہ درج کیے گئے ہیں، یاد رہے کہ 27جنوری 2011ءمیں لاہور کے لٹن روڈ تھانے میں ریمنڈ ڈیوس پر دو پاکستانی شہریوں کے قتل کے الزام میں مقدمہ دائر کیاگیا تھا ۔ قرطبہ چوک پر فیضان اور فہیم کو قتل کرنے والے مشتبہ شخص کا2ٹریفک پولیس اہلکاروں نے پیچھا کیا اور جب اسے پکڑا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ نوجوان مجھے لوٹنے کی نیت سے اس کا تعاقب کررہے تھے اور اس نے اپنے دفاع میں نوجوانوں پر فائرنگ کی ۔
یاد رہے کہ امریکی شہری کے ہاتھوں دو افراد کے قتل نے اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات کو کشیدہ کردیاتھا ۔ امریکا کی جانب ریمنڈ ڈیوس کے لیے سفارتی استثنیٰ کا دباﺅ ڈالا گیا، جو پاکستانی حکام کی جانب سے اس پر کچھ واضح اور کچھ مبہم ردعمل کا سبب بنا ۔ اس وقت کے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ”گرفتار امریکیوں کو سفارتی استثنیٰ نہیں دیا جاسکتا “۔ امریکی درخواست اس وقت مزید کمزور ہو گئی جب یہ بات سامنے آئی کہ گرفتار شخص پاکستان میں موجود سی آئی اے کے کارندوں میں سے ایک ہے ۔ خون بہا کے عوض ریمنڈ ڈیوس کو دی جانے والی معافی کا مطلب امریکا کی جانب سے اس کو بات کو تسلیم کرنا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس استثنیٰ کا حقدار نہیں یا اس کا کیس لڑنے والی ٹیم کو اس بات کی امید نہیں رہی کہ وہ انتظامیہ کو رضا مند کرسکیں گے کہ ریمنڈ ڈیوس کو استثنیٰ حاصل ہے ۔ دفتر خارجہ نے اس معاملے پر کوئی واضح موقف اختیارنہیں کیا اور نہ ہی ریمنڈ ڈیوس کے استثنیٰ کے حوالے سے کوئی سرٹیفکیٹ لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرایا ۔ دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ ٹرائل کورٹ پر چھوڑ دیا ۔ڈیڑھ مہینے تک جاری رہنے والے اس کشیدہ معاملے کا اختتام16مارچ2011ءمیں اس وقت ہوا جب ہلاک شدگان کے اہل خانہ کو23کروڑ روپے (23لاکھ ڈالر)ادا کرکے اسے پاکستان چھوڑنے کی اجازت دے دی گئی ۔ ریمنڈڈیوس سی آئی کے مبینہ کنٹریکٹر کی حیثیت سے پاکستان میں طویل عرصہ سے خدمات کے دوران نہ صرف یہ کہ جاسوسی میںملوث رہا بلکہ دھوکہ دہی کا بھی مرتکب ہوا ۔ر یمنڈ ڈیوس تجارتی ویزہ پر پاکستان آیا تھا ۔ اس پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی جاسوس طیاروں کی جارحیت کے لیے افراد اور علاقوں کی نشاندہی کرتا تھا ۔ ریمنڈ کو27 جنوری2011ءکو لاہورسے حراست میں لیاگیا اور اس کی گرفتاری کے دوران پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کم از کم تین ہفتوں تک امریکی جاسوس ڈرون طیاروں نے کوئی حملہ نہیںکیا۔16مارچ 2011ءکو مقتولین کے ورثاءکو تقریباً قصاص کے وعدہ پر عدالت نے ریمنڈ یوس کوبری کردیا حالانکہ اس پر غیر قانونی اسلحہ رکھنے کا اور جعلی ویزے پر پاکستان میں داخل ہونے کا الزام بدستور موجود تھا ۔ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کو ممکن بنانے کے لیے حکومت کی جانب سے اس پر مقدمہ باقاعدہ شرعی قانون کے تحت قائم کیاگیاتاکہ مقتولین کے ورثاءکو بھاری ر قم قصاص اور خوں بہا کے عنوان سے دے کر قتل کے مقدمہ سے بری کروایاجاسکے ۔ اس کی گرفتاری کے دوران حکومت پاکستان اور امریکہ انتظامیہ کے مابین اس معاملہ پر بحث جاریر ہی کہ ریمنڈڈیوس سی آئی اے کا کنٹریکٹر تھا ، تجارتی ویزے پر پاکستان آیا تھا یاباقاعدہ امریکی سفارت کار تھا ۔ ریمنڈ ڈیوس کی کتاب کے مندرجات سامنے آنے کے بعد عام پاکستانی کے ذہن میں کئی سوالات پیدا ہو رہے ہیں ۔و ہ جاننا چاہتا ہے کہ پاکستان کے حساس ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل شجاع پاشا کن اہداف ومقاصد کے حصول کے لیے اپنے مقام، منصب اور مرتبے سے صرف نظر کرتے ہوئے ایک قاتل امریکی جاسوس کے مقدمے کی پیروی کے لیے عدالت میں موجود رہے حالانکہ وہ جس ادارے کے سربراہ تھے ، جس کا بنیادی مقصد ہی وطن عزیز میں کسی بھی ملک کے جاسوسوں کا کھوج لگانا اور حراست میں لے کر کیفر کردار تک پہنچانا ہے ۔ اس کتاب کے مندرجات نے امریکی انتظامات کے تضادات کے چہرے سے بھی نقاب الٹ دیا ہے ۔
ایک طرف موجودہ امریکی انتظامیہ مقبوصہ کشمیر کی تحریک آزادی کے رہنما سید صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دینے پر مصر ہے جو اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور اسی ادارے کے بنیادی حقوق کے چارٹر کے عین مطابق بھارتی غاصب افواج کی موجودگی میں حق خود ارادیت کے حصول کے لیے تحریک چلا رہے ہیں ۔ سید صلاح الدین جس نے اپنے ہاتھ سے آج تک ایک بھی شخص کو قتل نہیں کیا اسے تو امریکی دہشت گرد قرار دے رہے ہیں جبکہ وہ اپنے دہشت گرد اور جاسوس قاتلوں کو مختصر مدت میں چھڑا کر لے جانا اپنا حق جانتے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک عالمی طاقت کے دہرے معیارات باقی ہیں ، دنیا کے کسی بھی خطے میں پائیدار قیام امن کی راہیں ہموار نہیں ہوسکتیں ۔