کراچی:
سندھ ہائیکورٹ نے نیب کی جانب سے شہری شمشاد علی کو جعلی کال نوٹس بھیجنے سے متعلق ڈپٹی ڈائریکٹر افسر گل آفریدی اور نیب انٹیلی جینس کی رپورٹ مسترد کردی۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس احمد علی شیخ کی سربراہی میں جسٹس عمر سیال پر مشتمل دو رکنی بینچ کے روبرو نیب کی جانب سے شہری شمشاد علی کو جعلی کال نوٹس بھیجنے کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔
نیب کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ کال اپ نوٹس جاری ہونے کے بعد احتساب عدالت حیدر آباد رجسٹرار آفس سے ملزم کو کال کی گئی، معاملے کی تحقیقات پولیس بھی کررہی ہے، نیب کا تفتیشی افسر کسی کو براہ راست کال اپ نوٹس جاری نہیں کرتا۔
عدالت نے ڈپٹی ڈائریکٹر افسر گل آفریدی اور نیب انٹیلی جینس کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے ڈی جی نیب کراچی کو 16 اپریل کو طلب کرلیا۔
عدالت نے نیب ریکارڈ رجسٹر بھی اپنی تحویل میں لے لیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ڈپٹی ڈائریکٹر نیب گل آفریدی کے خلاف تو شہری کے اغوا کا مقدمہ بھی درج تھا، مقدمہ درج ہوا تو گل آفریدی نے اپنا تبادلہ اسلام آباد کرالیا۔
پراسیکیوٹر نیب نے موقف اپنایا کہ نیب نے معاملے کی تحقیقات کی ہے، کال اپ نوٹس نیب نے جاری نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جرم بھی نیب والے کریں اور تحقیقات بھی نیب کرے گا یہ کیسے ممکن ہے، کیوں نا نیب کیخلاف ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دیں۔
پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ آپ جس سے چاہیں تحقیقات کرالیں، معاملہ عدالت میں حل نہ ہو تو آئی ایس آئی سے بھی تحقیقات کرالیں نیب کو اعتراض نہیں۔
چیف جسٹس نے نیب پراسیکیوٹر کو جھاڑ پلاتے ہوئے کہا کہ خاموش ہو جاؤ، شور مت کرو، جو انٹری رجسٹر عدالت میں پیش کیا گیا وہ بھی گمراہ کن ہے، لگتا ہے کل ہی بیٹھ کر یہ رجسٹر ترتیب دیا گیا۔