اسلام آباد:
امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے سے نہ صرف 18 سالہ تنازع ختم ہو گا بلکہ جنگ زدہ افغانستان میں استحکام بھی آئے گا۔ 29فروری کومعاہدے پردستخط سے قبل افغان طالبان سات روزہ جنگ بندی کریں گے۔
قریب الوقوع امن معاہدہ 14ماہ طویل مذاکراتی کوششوں کا نتیجہ ہے جس کیلیے پاکستان نے سہولت کاری کی۔ ستمبرمیں دونوں اطراف معاہدے پر دستخط کے قریب تھے تاہم صدر ٹرمپ نے آخری لمحات میں مذاکرات یہ جواز بنا کر منسوخ کردیئے تھے کہ امریکی فوجوں پر ان کے حملے جاری ہیں تاہم اس کی حقیقی وجہ امریکی انتظامیہ کی اندرونی تنقید تھی کہ مجوزہ معاہدہ ہتھیار ڈالنے کے سوا کچھ نہیں کیونکہ طالبان جنگ بندی کیلئے تیارنہ تھے۔ چند ہفتوں بعدامریکی نمائندے زلمے خلیل زادنے طالبان سے مذاکرات شروع کر دیے ، وہ اکتوبرمیں اسلام آبادمیں ملاعبدالغنی کی زیرسربراہی طالبان وفد سے ملے اورمعاہدے سے قبل جنگ بندی کیلیے زور دیا۔
پاکستان سے کردار ادا کرنے کی درخواست کی گئی جس پرکوششوں کی آغازکی بدولت طالبان نے تشدد میں کمی کی۔ سفارتی ذرائع کے مطابق متوقع معاہدے کاسہرا پاکستان کو جاتا ہے ۔ واضح رہے امریکہ پاکستانی کردار کی ستائش کر چکا ہے۔ حکام کے مطابق افغانستان میں امن اوراستحکام کی بدولت پاکستان سے زیادہ کسی ملک کو فائدہ نہیں ہو سکتا۔ یہ سوالات بھی اٹھائے گئے کہ امن معاہدے میں کردار ادا کرنے پرپاکستان کو بھی جواب میں کچھ ملے گا۔ یہ اشارے ہیں کہ امریکہ اورافغانستان نے پاکستان کی طرف سے تحفظات کے حل کیلیے اقدامات شروع کیے ہیں۔ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈروں کی حالیہ ہلاکتیں اسی مفاہمت کانتیجہ خیال کیا جاتا ہے۔