سلیم صدیقی، نیویارک
قرآن پاک کی سورة القصص میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے متعلق واقعہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔جب وہ اللہ تعالیٰ کی حکمت سے فرعون کے عمل میں پرورش پا رہے تھے۔بنی اسرائیل سے تعلق تھا جو اس وقت محکومیت اور نسل پرستی کا شکار قوم تھی قبطی ان پر حکمران تھے اور انتہائی ظالم جابر اور نسل پرست تھے۔موسیٰ علیہ السلام فرعون کے محل میں شہزادوں کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ایک دن بازار میں ایک قبطی کو دیکھا جو بنی اسرائیلی کوپیٹ رہا تھا موسیٰ علیہ السلام نے قبطی کو باز رکھنے کی کوشش کی مگر مظلوم کو بچاتے بچاتے جابر نسل پرست قبطی کوموسیٰ کا گھونسا لگا اور وہ موقع پر ہلاک ہوگیا۔موسیٰ علیہ السلام کو صورت حال کی سنگینی کا ادراک ہوا تو وہ ہجرت کرکے مدینے چلے گئے بعد کی تفصیل اس کالم کا موضوع نہیں ہے تاہم ہر مسلمان کو علم ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کہاں پہنچے کس طرح کنویں پر دو لڑکیوں کی مدد کی ،شادی ہوئی ،واپس آئے نبوت علی اور فرعون کو شکست دیکر بنی اسرائیل کو آزادی دلوائی۔قبطی اور موسیٰ کا واقعہ نہ تو پہلا ظالم اور مظلوم کا واقعہ تھا نہ ہی جارج فلوئیڈ راڈنی کنگ وغیرہ کا آخری واقعہ ہے جب سے دنیا وجود میں آئی ہے یہ واقعات ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔مگر زندہ معاشروں میں قومیں ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے مظلوموں کی مدد کے لئے آگے آتی ہیں۔حالیہ دنوں میں امریکی قوم کے مختلف طبقات نسل پرستی اور پولیس کی سفاکانہ پالیسیوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔اسکا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہر طرف سے اب پولیس کے ناروا اور سفاکانہ طرز عمل کے احتساب کے لئے قانون سازی کی جارہی ہے۔منی سوٹا میں متعلقہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کو ختم کرنے کی قرار داد منظور کی جاچکی ہے۔نیویارک کے میئر ڈی بلازیو بھی پولیس فنڈنگ میں کمی کے واقعات کر رہے ہیں، بہت سے حلقے کرپٹ اور بدنام پولیس اداروں میں اصلاحات یا اسے ختم کرنے کے خلاف ہیں۔دسمبر2014ءمیں جس دن پشاور میںAPSکا سانحہ ہوا تھا جس میں نیوجرسی کے شہرCAMDENمیں وہاں کی پولیس کے بارے میں اس تفصیلی بریفنگ دی گئی تھی۔جس میں خود پولیس کے اعلیٰ حکام نے انکشاف کیا کہ وہاں کا پولیس ڈیپارٹمنٹ کس قدر بدنام اور جرائم پیشہ افراد سے بھرا پڑا تھا۔مجرموں کی سرپرستی کی پولیس کھلے عام کرتی تھی، منشیات کی فروخت بھی وہاں کی پولیس کی نگرانی کی جاتی تھی، ہمیں شہر کا دورہ بھی کرایا گیا ،کئی علاقے بھوت بنگلوں کا منظر پیش کر رہے تھے ،دن کی روشنی میں پولیس کی موجودگی میں خوف محسوس ہوتا تھا۔ہمیں بتایا گیا کہ سٹیٹ اور کاﺅنٹی کے بڑوں نے سر جوڑ کر فیصلہ کیا کہ موجودہ پولیس کے ادارے کو ختم کرکے کمیونٹی پولیسنگ کی طرز پر نیا ادارہ تشکیل دیا جائے،آج نئے نظام کے تحت وہاں کسی پولیس کمیونٹی کی مدد سے جرائم پر قابو پانے میں بڑی حد تک کامیاب ہوچکی ہے ، نسل پرستی کی امریکہ میں موجودگی اور نفرت کی بھی اپنی تاریخ ہے۔پرتگالیوں نے ان گوار ے سیاہ فاموں کو اغواءکرکے امریکی سفید ناموں کو بیچنے اور بیگار لینے کی ابتدا کی تھی۔1619میں برطانوی راج کے دوران اس کا سلسلہ شروع کئی تاریخی حوالوں سے اسکی ابتدائ1400سے1500کے دوران ہوئی، سول وار میں بھی ان غلاموں کو دھکیلا گیا، بڑے بڑے شہروں کے سب ویز ،ہائی ویز اور عمارات کی تعمیرات بھی ان قومی الجثہ افریقن امریکینز سے کروائی گئیں۔
ظالم جابر مالکان سے غلاموں کے فرار کی بھی دلیرانہ داستانیں ہیں انکی مدد کے لئے شمال کی ریاستوں نے تنظیمیں بنائیں جن میںQuackersاور انڈر گراﺅنڈ ریل روڈ نیٹ ورک کا وجود شامل ہے جو سیاہ فاموں کو پناہ دینے میں مدد دیتا تھا۔1800میں نارتھ کیرولائنا اور1816میں چرچ نے بھی انکی بڑی مدد کی۔ریل روڈ والوں نے انکی رہنمائی کے لئے گائیڈ مقرر کئے جنہیں کنٹریکٹر کہا جاتا تھا، پناہ گاہ کو سٹیشن کا درجہ دیا گیا اور آرگنائز کرنے والوں کو سٹیشن ماسٹر کہا جاتا تھا،انہیں کینیڈا بھی بنا پر فراہم کرتا تھا ،اس وقت کینیڈا کا کردار انتہائی قابل تحسین تھا۔
1793میں اس فرار کو روکنے کے لئے سخت قانون سازی بھی کی گئی ،امریکہ کے بانی جارج واشنگٹن نے1786میں اپنے غلاموں کو پناہ دینے پر سخت ناراضگی بھی ظاہر کی۔
1842میں ساﺅتھ کیرولائنانے اس قانون کو ختم کردیامگر 1850میں اس سے سخت تر قانون بنایا گیا۔یوں نسل درنسل سیاہ فاموں کے ساتھ ناروا جابرانہ سلوک کیا جاتا رہاحتیٰ کہ ابراہم لنکن نے انہیں آزادی دلائی اور اسی پاداش میں انہیں قتل کر دیا گیا تھا ،یہ تو صرف امریکہ کی تاریخ ہے جسکا لاوا پھٹ پڑا ہے مگر یہ تقریباً ہر معاشرے کا المیہ ہے خود ہمارے پاکستان میں بالادست طبقے کم تر طبقات یا چھوٹے صوبے کے لوگوں کو تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں،ہمارے پشتونوں اور سندھیوں کو کچھ طبقات حقارت سے دیکھتے ہیں۔
رحمت العالمین حضرت محمد مصطفٰےﷺنے اپنے حجتہ الوداع کے خطیہ میں ان جاہلانہ رسومات کو سختی سے مسترد کر دیا تھا جو لوگ خلیج اور سعودیہ میں کام کرتے رہے ہیں انہیں پتہ ہے کہ کس قدر ظالمانہ اور معتصبانہ جذبات پائے جاتے ہیں۔اپنے ہم مذہب مسلمانوں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے مگر عرب ممالک کے ورکرز جو غیر عرب مسلمانوں سے زیادہ محنتی اور ماہر نہیں ہوتے مگر تعصب کی وجہ سے انہیں حقوق نہیں دیئے جاتے ،یورپین اور سفید ناموں کو تو اور بھی زیادہ مراعات دی جاتی ہیں ،خود غریب عرب ممالک کے باشندوں جن میں یمن، مصر اور سوڈان شامل ہیں یہی سلوک روا رکھا جاتا ہے جو افریقن امریکینز کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔
وائٹ ہاﺅس کے سامنے والی سڑک کوBlack lives matterسے رنگ دیا گیا ہے ،سیاہ فام خاتون میئر نے ٹرمپ کو دن میں تارے دکھائے ہیں اور سڑک کو اسی نام سے منسوب کر دیا گیا ہے۔سابقہ جرنیل اور اراکین کانگریس چلا اٹھے ہیں کہ عوام کیسے کیسے عجیب لوگوں کو منتخب کرتے ہیں۔
بہرحال امریکہ کی طرح یورپ میں بھی اس نسل پرستی کے خلاف عوام اٹھ کھڑی ہوئی ہے کئی نامور لوگوں کے مجسمے گرا دیئے گئے ہیں جس پر بہت سے چراغ پا ہیں،صدام حسین کے مجسمے گرانے کی فوٹیج کسی نے بھی نہیں دکھائی، آئینہ پر کسی کو برُا دکھائی دیتا ہے۔