لیبیا میں قیامت خیز تباہی، 5ہزار سے زائد اموات، سینکڑوں لاپتہ

0
59

ٹریپولی (پاکستان نیوز)لیبیا میں سمندری طوفان اور سیلاب نے قیامت صغریٰ کا منظر بپا کر دیا، ڈیم ٹوٹنے سے سیلابی ریلہ بڑی بڑی عمارتوں اور گھروں کو ساتھ بہا لے گیا، اموات کی تعداد 5ہزار 200سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ 300افراد کو اجتماعی قبروں میں دفنا دیا گیا ہے ، لاپتہ افراد کی تعداد 1لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے ، مشرقی لیبیا کی حکومت کے وزارت داخلہ کے ترجمان طارق الخراز کا کہنا ہے کہ تباہ کن سیلاب سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 5200 ہو گئی ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ درنہ شہرکا تقریبا ایک چوتھائی حصہ تباہ ہو گیا ہے۔ ان کے بقول سمندری طوفان ڈینیئل کی وجہ سے شہر کے دو ڈیم ٹوٹ گئے اور سیلابی ریلہ اپنے ساتھ عمارتوں اور لوگوں کو بہا کر لے گیا۔ شہات بلدیہ کے میئر حسین بودرویشا نے ڈی پی اے کو بتایا کہ طوفانی بارش کی وجہ سے خطے کے تقریبا 20000 مربع کلومیٹر کے علاقے میں پانی بھر گیا۔ماہرین کے مطابق 1963 میں ملک میں آنے والے المرج زلزلہ کے بعد سے یہ اب تک کی سب سے بڑی قدرتی آفت ہے۔انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اور ہلال احمر سوسائٹیز کے سربراہ تمر رمضان نے بتایا کہ اس ہلاکت خیز سیلاب کی وجہ سے تقریبا دس ہزار افراد لاپتہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ لیبیا کے دوسرے بڑے شہر بن غازی کے علاوہ دیگر کئی مشرقی شہر بھی طوفان کی زد میں آ گئے، ہلاک ہونے والوں کی تعداد”بہت زیادہ”ہو گی، لاپتہ افراد کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ لیبیا کے وزیر صحت عثمان عبدالجلیل نے المسار ٹی وی چینل کو بتایا کہ درنہ میں بہت سے متاثرین پھنسے ہوئے تھے اور بہت سی لاشیں بکھری پڑی تھیں، چونکہ درنہ کے اطراف کے علاقے اس سے کٹ گئے ہیں اس لیے ہلاکتوں اور لاپتہ ہونے والے لوگوں کی صحیح تعداد کا پتہ لگانا مشکل ہو رہا ہے۔لیبیا میں اس وقت مغرب اور مشرق میں دو حریف حکومتیں ہے اور دونوں اقتدار پر قبضے کی جنگ میں مصروف ہیں، جس کے سبب ملک بدامنی کا شکار ہو گیا ہے۔ مشرقی بندرگاہی شہر درنہ پر اسلامی شدت پسندوں کا کنٹرول ہے۔ بین الاقوامی برادری اس کو تسلیم نہیں کرتی ۔ مغرب میں طرابلس بین الاقوامی طور تسلیم شدہ حکومت ہے۔متحدہ عرب امارات، ترکی، مصر، الجزائر، تیونس اور یورپی یونین نے فوری طور پر امدادی اشیا بھیجنے کی پیشکش کی ہے۔ انہوں نے سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو بچانے اور تلاش کے کاموں میں مدد دینے نیز سیلاب کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر قابو پانے کے لیے اپنی ٹیمیں روانہ کی ہیں۔ جرمنی اور امریکہ سمیت متعدد مغربی ملکوں نے اس قدرتی آفت سے متاثرین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔خیال رہے کہ لیبیا سن 2011 میں معمر قذافی کو اقتدار سے معزول اور ہلاک کرنے کے بعد سے ہی بدامنی کا شکار ہے۔ تیل سے مالامال اس ملک پر اقتدار حاصل کرنے کے لیے متعدد گروپ باہم متصادم ہیں۔ غیر ملکی حکومتوں نے بھی اس تصادم کو ہوا دینے کا کام کیا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here