”پولیس رویوں میں تبدیلی کا وقت آن پہنچا “

0
353
مجیب ایس لودھی

مجیب ایس لودھی، نیویارک

دنیا بھر میں امریکہ کے متعلق ایک بات مشہور تھی جوکہ اس کو تمام اقوام کے لیے پسندیدہ ملک بناتی تھی اور وہ یہ تھی کہ” امریکہ مہاجرین کا ملک ہے “یعنی دنیا بھر کے کونے کونے سے آئے لوگ امریکہ میں آزادانہ زندگی بسر کرتے ہیں لیکن بڑی معذرت کے ساتھ اب ایسا بالکل نہیں ہے ،گورے کی روایتی سوچ میں ذرا برابر بھی تبدیلی نہیں آئی ہے جوکہ کالے شخص کے گلے میں پٹا ڈال کر ریسٹورنٹ میں داخل ہونا پسند کرتا ہے ، امریکہ میں کالے افراد کے ساتھ نسلی تعصب کے متعلق اب تک بے شمار فلمیں بن چکی ہیں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ امریکہ میں آباد روایتی گورے اب بھی کالے افراد کو اپنے ساتھ ہر گز پسند نہیں کرتے ہیں جس طرح بھارت میں ”شودر“ذات کے لوگوں کو اچھوت تصور کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح امریکہ میں کالے افراد کو تعصب کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن اب یہ نسلی تعصب امریکہ کے زوال کی پہلی کڑی بن گیا ہے ۔حکمرانوں کو اس کے متعلق سوچنا ہوگا جب باراک اوباما امریکہ کے صدر بنے تو بہت سے افراد کو امید تھی کہ شاید اب ملک میں نسل پرستی اور نسلی تعصب کو ختم کرنے کے حوالے سے کوئی بڑے اقدامات سامنے آئیں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہو سکا کیونکہ ملک کے تمام بڑے اداروں میں وہی روایتی سوچ کے حامل گورے موجود ہیں جوکہ اس حوالے سے کسی بھی بڑی پیشرفت میں بڑی رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں ۔امریکی پولیس کے رویے میں تعصب کی یہ جھلک بہت نمایاں نظر آتی ہے ، پولیس کا گوروں افراد کے لیے رویہ ہمیشہ نرم رہتا ہے لیکن اگر کوئی کالا یا ایشیائی شخص ان کے ہتھے چڑھ جائے تو بس اُس کی خیر نہیں ہوتی ،تمام جارحانہ رویوں اور داﺅ پیج کی تجربہ گاہ وہ افراد بن جاتے ہیں۔جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال نے امریکہ میں سب سے بڑے مسئلے” نسلی امتیاز“ کو نمایاں کر دیا ہے جس کو ختم کرنے کیلئے ہر سطح پر قانون سازی کی ضرورت ہے ، خاص طور پر پولیس کی تربیت اور اصول و ضوابط کو بدلنے کا وقت آن پہنچا ہے ، جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے بعد تمام شہروں کے پولیس چیفس نے اس کی مذمت کی ہے لیکن اب ان پولیس سربراہوں کا فرض ہے کہ وہ پولیس کی تربیت اور اصول و ضوابط میں نمایاں تبدیلیاں کریں ۔ پولیس کے جارحانہ رویے کے خلاف شکایات کو کم کرنے کیلئے پولیس وردی پر ایک فرنٹ کیمرے کو چسپاں کیا گیا ہے جوکہ اب بھی چسپاں ہے جس سے کسی بھی اہلکار کی سرگرمی کو براہ راست مانیٹر کیا جا سکتا ہے لیکن صد افسوس! ان کیمروں سے کبھی بھی کسی ایشیائی ، تارک وطن یا کالے شخص سے امتیازی سلوک کی ویڈیو کو پبلک نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی عوام کے سامنے لایا گیا ہے ، دوسرے الفاظ میں یہ کیمرے بھی برائے نام ہی کام کر رہے ہیں اگر کیمروں کی مانیٹرنگ کو سخت کیا جاتا اور اہلکار سے پوچھ گچھ کو سخت بنایا جاتا تو آج جارج فلوئیڈ کی ہلاکت اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے محفوظ رہا جا سکتا تھا ۔پولیس کی جانب سے آج مظاہرین کو روکنے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے ، عوام پر لاٹھیاں برسائی جا رہی ہیں جبکہ ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس کی شیلنگ بھی ہو رہی ہے یہاں تک کے صحافیوں کے بڑی تعداد پولیس کے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہی ہے لیکن اس ساری صورتحال میں کمیونٹیزکا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ پولیس کے کوڈ آف کنڈٹ کی بات کی جائے تو بیشتر شہروں کے پولیس اہلکار اپنی کارروائیوں کے دوران ہلاکتوں اور زخمی ہونے والے شہریوں کے متعلق کوئی اعدادو شمار پولیس سٹیشنوں میں جمع نہیں کراتے ہیں تاکہ مستقبل میں ان سے پوچھ گچھ نہ ہوسکے ، ایسی صورتحال میں پولیس ریفارمز لازمی امر بن گئی ہیں ، تارکین وطن اب مزید پولیس کا ظلم و ستم برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اگر پولیس ریفارمز نہ کی گئی تو مستقبل میں کئی جارج فلوئیڈ پولیس کے ہاتھوں قتل ہوتے رہیں گے اور اسی طرح مظاہروں اور احتجاج کے دوران قومی املاک کو نظر آتش کیا جاتا رہے گا کیونکہ ایک مرتبہ اگر یہ سلسلہ شروع ہو گیا ہے تو اب تھمے گا نہیں ، آج کالوں نے اپنے حقوق اور طاقت کے لیے قومی املاک کو جلایا ہے تو کل دیگر کمیونٹیز کے افراد بھی اسی طرح سر عام سڑکوں پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں گے ۔اب حکمرانوں کو چاہئے کہ مستقبل میں مزید ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے پولیس اور روایتی سوچ کے حامل گورے افراد کی سوچ میں نمایاں تبدیلی لائی جائے اور اس کے لیے سماجی سطح پر مہم شروع کرنے کے ساتھ پولیس کی تربیت میں بھی نمایاں تبدیلیاں لائی جانی چاہئیں تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام میں مدد مل سکے ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here