سلیم صدیقی، نیویارک
دنیا اس وقت عجیب و غریب کیفیت سے گزر رہی ہے مختلف طبقہ فکر کے لوگ اپنی اپنی سوچ کے مطابق دوسروں کو اس سازش کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں، آکسفورڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر پانچواں انگریز اسے یہودیوں کی سازش قرار دیتا ہے جو کہ اپنی بقا کے لئے دنیا کی اکانومی تباہ کرنا چاہتے ہیں، دوسرا طبقہ اسے مسلمانوں اور دیگر بل گیٹس اور دواساز± کمپنیوں کی ملی بھگت قرار دے رہے ہیں۔ امریکہ چین پر کھلے عام کورونا وائرس کی ذمہ داری عائد کررہا ہے، پاکستانیوں کی بہت سی تھیوریاں ہیں بلکہ ہر کس کی اپنی تھیوری ہے کوئی تو بالکل منکر ہے اور یہی طبقہ ہر وارننگ اور احتیاط بالائے طاق رکھ کر بازاروں اور سڑکوں پر ایسا دندناتا پھر رہا ہے جیسا ہر چیز مفت میں بٹ رہی ہے۔ رب کائنات کا اپنا جاہ و جلال و عظمت والا گھر جو اسکے خلیل اور اسکے بیٹے اسماعیل علیہ سلام نے تعمیر کیا تھا لبیک کی صداو¿ں سے محروم ہے اسکے محبوب کا وہ رحمتوں کا وہ مینارہ روضہ مبارک وہ جہاں اسکا وہ حبیب محو استراحت ہے جسکے لئے یہ کائینات تخلیق کی گئی جس پر صدیوں سے درود و سلام کی صدائیں گونجتی تھیں اب وہاں صرف خادمین نمازیں ادا کرتے ہیں کیا یہ اس خالق کی اپنی مخلوق سے ناراضگی نہیں کیا یہ اسکی اپنے اس شفیع المذبنین کی اس امت سے ناراضگی نہیں جسکی خاطر طائف اور قریش اور مدینہ کے یہودیوں کے کتنے مظالم سہے آج اسکی امت اس کا کیا صلہ دے رہی ہے دولت اور اقتدار کے پجاری ہے ایک دوسرے کو قتل کررہے ہیں لیبیا یمن شام عراق میں خطرناک ہتھیاروں سے امت کے دشمنوں کی مدد سے اپنے ہم وطنوں کی نسل کشی اور املاک تباہ کررہے ہیں، اعتکاف میں بیٹھے معصوموں کی عصمت دری اور انہیں قتل کیا جاتا ہے۔ ہم جیسے لوگ اور کچھ نہیں تو قربت قیامت کی نشانیاں قرار دے دیتے ہیں جو ہمارے ایمان کا حصہ ہے ذیل میں دیکھتے ہیں کہ اللہ کے آخری نبی ﷺ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں کیا کورونا کے حملے سے قیامت کی نشانی میں کوئی مماثلت پائی جاتی ہے۔ مسند احمد میں حذیفہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تم اس سے پہلے دس نشانیاں نہ دیکھ لو۔ 1 آفتاب کا جانب مغرب سے طلوع ہونا۔2 دخان۔ 3 دابہ۔،4 خروج ،اجوج اور ماجوج۔ 5 نزول عیسیٰ علیہ السلام۔ 6 دجال۔7،8،9) تین خسوف ایک مغرب میں دوسرا مشرق میں تیسرا جزیرة العرب میں ہوگا۔ 10 ایک آگ جو قعرعدن سے نکلے گی اور سب لوگوں کو ہنکا کر میدان حشر کی طرف لے آئیگی جس مقام پر لوگ رات گزارنے کے لیے ٹھہریں گے یہ آگ بھی ٹھہر جائے گی پھر ان کو لے چلے گی ۔ اس حدیث سے قرب قیامت میں زمین سے ایک ایسے جانور کا نکلنا ثابت ہوا جو لوگوں سے باتیں کرے گا۔ اور لفظ دابة کی تنوین میں اس جانور کے عجیب الخلقت ہونے کی طرف بھی اشارہ پایا گیا اور یہ بھی کہ یہ جانور عام جانوروں کی طرح توالد و تناسل کے طریق پر پیدا نہیں ہوگا بلکہ اچانک زمین سے نکلے گا اور یہ بات بھی اسی حدیث سے سمجھ میں آتی ہے کہ دابتہ الارض کا خروج بالکل آخری علامات میں سے ہوگا جس کے بعد بہت جلد قیامت آ جائے گی۔ ابن کثیر نے بحوالہ ابو داو¿د طیالسی طلحہ بن عمر سے ایک طویل حدیث میں روایت کیا ہے کہ یہ دابتہ الارض مکہ مکرمہ میں کوہ صفا سے نکلے گا اور اپنے سر سے مٹی جھاڑتا ہوا مسجد حرام میں حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان پہنچ جائے گا۔ لوگ اس کو دیکھ کر بھاگنے لگیں گے ایک جماعت رہ جائے گی یہ دابہ ان کے چہروں کو ستاروں کی طرح روشن کر دے گا۔ اس کے بعد وہ زمین کی طرف نکلے گا، ہر کافر کے چہرے پر کفر کا نشان لگا دے گا۔ کوئی اس کی پکڑ سے بھاگ نہ سکے گا یہ ہر مومن و کافر کو پہچانے گا ( ابن کثیر) اور مسلم بن حجاج نے عبد اللہ ابن عمر سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک حدیث سنی تھی جس کو میں کبھی بھولتا نہیں وہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کی آخری علامات میں سب سے پہلے آفتاب کا طلوع مغرب کی طرف سے ہوگا اور آفتاب بلند ہونے کے بعد دابتہ الارض نکلے گا ان دونوں علامتوں میں سے جو بھی پہلے ہو جائے اس کے فوراً بعد قیامت آ جائے گی۔ (ابن کثیر) شیخ جلال الدین محلی نے فرمایا کہ خروج دابہ کے وقت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے احکام منقطع ہوجائیں گے اور اس کے بعد کوئی کافر اسلام قبول نہ کرے گا۔ یہ مضمون بہت سی احادیث و آثار سے مستنبط ہوتا ہے (مظہری) ابن کثیر وغیرہ نے اس جگہ دابتہ الارض کی ہیئت اور کیفیات و حالات کے متعلق مختلف روایات نقل کی ہیں جن میں سے اکثر قابل اعتماد نہیں اس لیے جتنی بات قرآن کی آیات اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ یہ عجیب الخلقت جانور ہوگا۔ بغیر توالد و تناسل کے زمین سے نکلے گا۔ اس کا خروج مکہ مکرمہ میں ہوگا پھر ساری دنیا میں پھرے گا۔ یہ کافر و مومن کو پہچانے گا اور ان سے کلام کرے گا بس اتنی بات پر عقیدہ رکھا جائے، زائد کیفیات و حالات کی تحقیق و تفتیش نہ ضروری ہے نہ اس سے کچھ فائدہ ہے۔ رہا یہ معاملہ کہ دابتہ الارض لوگوں سے کلام کرے گا اس کا کیا مطلب ہے؟ بعض حضرات نے فرمایا کہ اس کا کلام یہی ہوگا جو قرآن میں مذکور ہے اَنَّ النَّاسَ ان±وا بِاٰتِنَا لَا ±وقِن±ونَ، یہ کلام وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو سنائے گا، بہت سے لوگ آج سے پہلے ہماری آیتوں پر یقین نہ رکھتے تھے اور مطلب یہ ہوگا کہ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ان سب کو یقین ہو جائے گا مگر اس وقت کا یقین شرعاً معتبر نہیں ہوگا اورابن عباس، حسن بصری، قتادہ سے منقول ہے اور ایک روایت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی ہے کہ یہ دابتہ لوگوں سے خطاب اور کلام کرے گا جس طرح عام کلام ہوتا ہے۔
٭٭٭